Thursday, August 17, 2023

قوم لوط

قوم لوط جنہوں نے ایسی برائی کو ایجاد کیا۔ جو ان سے پہلے دنیا میں کسی قوم نے نہ کی تھی۔ ایسی بدکاری جس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ اس قوم نے ایسا کیا کام کیا تھا اور ان کا کیا انجام ھوا۔ حضرت لوط علیہ السلام  اللہ کے ایک برگزیدہ نبی تھے آپ کے والد کا نام حاران تھا جو تابش کے بیٹے تھے آپ کی پیدائش عراق کے قدیم شہر "عر" میں ہوئی تھی اس شہر میں ابراہیم علیہ السلام کا مسکن تھا۔ دراصل لوط علیہ السلام کے والد حاران حضرت ابراہیم کے سگے بھائی تھے یعنی حضرت لوط علیہ السلام کے والد حضرت ابراہیم کے بھتیجے تھے چونکہ حضرت لوط علیہ السلام کے والد ان کے بچپن میں ہی انتقال کر چکے تھے لہذا حضرت لوط  کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیٹا بنا کر پالا تھا آپ حضرت ابراہیم پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں شامل ہیں

 آپ حضرت ابراہیم کے زمانے میں اہل سدوم کی رہنمائی کے لئے نبوت کے منصب پر فائز ہوئے ۔ حضرت لوط کے بہت سارے معجزات ہیں آپ جس وقت بارش کے لیے دعا کرتے تھے تو آسمان بادلوں سے بھر جاتا اور خوب بارش ہوتی تھی۔ حضرت لوط علیہ السلام جس پتھر پر سر رکھ کر سوتے تھے اس پتھر پر آپ کے سر مبارک کا نشان بن جاتا تھا سدوم وہ علاقہ تھا جہاں لوط علیہ السلام مبعوث فرمائے گئے

 سدوم کے آس پاس پانچ نہایت ہی خوبصورت شہر آباد تھے جن میں سے ہر ایک کی آبادی ایک لاکھ سے زیادہ تھی یہ علاقے نہایت سرسبزو شاداب اور قدرت کی فیاضی کا حسین شاہکار تھا یہاں باغات کی کثرت تھی لہلہاتی کھتیاں یہاں کی ضروریات سے زیادہ تھیں اردن، شام اور اسرائیل کے درمیان بسا ہوا۔ یہ علاقہ نہایت ہی زرخیز تھا وہاں طرح طرح کے اناج پھل میوے بکثرت پیدا ہوتے تھے۔

 یہی وجہ تھی کہ آس پاس کی بستیوں کے لوگ، اپنی معاشی اور غذائی ضرورت کے لئے ان بستیوں کی طرف آتے تھے مگر یہ بات اہل سدوم کے لوگوں کو بالکل بھی پسند نہ تھی ان کے خیال میں ان کی بستیوں میں پیدا ہونے والے پھلوں اناج اور سبزیوں پر صرف ان کا ہی حق تھا وہ نہیں چاہتے تھے کہ دوسری بستیوں کے لوگ ان کے علاقے میں آئیں۔ ایک دن سدوم کے لوگ اس بات پر غور و فکر کر رہے تھے 

کہ باہر سے آنے والے لوگوں کو یہاں آنے سے آخر کیسے روکا جائے۔ کہ ایک بزرگ کی شکل میں ابلیس ان کی محفل میں آیا اور کہا اگر تم ان سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہو تو میرے کہنے پر عمل کرو۔ اس اجنبی بزرگ کی بات لوگوں نے بہت توجہ سنی۔ اور ابلیس نے کہا باقی بات میں کل بتاؤں گا۔  دوسرے دن کی  ابلیس ایک خوبصورت جوان لڑکے کے بھیس میں آیا 

اور انہیں اپنی عورتوں کی بجائے۔ مردوں کے ساتھ فیل بد کرنا سکھایا۔ ابلیس نے کہا کہ اگر تم ان بستیوں کے لوگوں سے نجات چاہتے ہو۔ جو تمہاری بستی میں آ جاتے ہیں تو ایسا کرو کہ جب بھی کوئی شخص تمہارے علاقے میں آئے تو تم لوگ زبردستی اس کے ساتھ اپنی خواہش پوری کرو۔ اس طرح یہ لوگ اس بستی میں آنا چھوڑ دیں گے۔ اپنی نفسانی خواہشات کے لیے مردوں سے بد فعلی اس قوم کا دستور بن گیا تھا۔

 یہاں بے حیائی عام ہوگئی تھی۔ حکمران، سردار، رعوسہ، ہر طبقے میں گھر گھر یہ عمل پھیل گیا تھا۔ بھری محفل میں یہ لوگ اس فحاشی کے اس کام کو کر کے خوش ہوتے تھے کوئی بھی محفل اس کام کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی تھی۔ خاص کر مسافروں میں سے کوئی خوبصورت لڑکا ہوتا تو یہ لوگ اسے اپنا شکار بنا لیتے طلموت میں لکھا ہے کہ اہل سدوم اپنی روز مرہ کی زندگی میں سخت ظالم دھوکہ باز اور بد معاملہ تھے

 کوئی مسافر ان کے علاقے سے بخیریت نہیں گزر سکتا تھا کوئی غریب ان کی بستیوں سے روٹی کا ایک ٹکڑا نہ پا سکتا تھا۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ باہر کا آدمی ان کے علاقے میں پہنچ کر فاقوں سے مر جاتا تھا اور یہ لوگ اس کے کپڑے اتار کر اس کی لاش کو برہنہ دفن کر دیتے۔ اپنی وادی کو انہوں نے ایک باغ بنا رکھا تھا۔ جس کا سلسلہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا اس باغ میں وہ انتہائی بے حیائی کے ساتھ اعلانیہ بد کاریاں کرتے تھے۔

 حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں توحید کی دعوت دی اور بدکاری کے اس گھناونے عمل سے توبہ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت لوط نے کہا تم  یہ کیوں کرتے ہو کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر لذت حاصل کرنے کے لیے مرد کی طرف مائل ہوتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم احمق لوگ ہو۔ تو پھر حضرت لوط اہل سدوم کو دن رات وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے۔ لیکن اس قوم پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔

 بلکہ وہ بہت فخریہ انداز میں یہ کام کرتے تھے انہیں حضرت لوط کا سمجھانا بھی برا لگتا تھا لہذا انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر تم ہمیں اسی طرح بھلا کہتے رہے اور ہمارے کاموں میں مداخلت کرتے رہے تو ہم تمہیں اپنے شہر سے نکال دیں گے۔ حضرت لوط نے نصیحت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔ لہذا ایک دن اہل سدوم نے خود ہی عذاب الہی کا مطالبہ کر دیا۔

 اللہ تعالی نے اب تک ان کے اس بدترین عمل فحاشی اور بدکاری کے باوجود ڈھیل دے رکھی تھی۔ لیکن جب انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام سے ایک دن کہا کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب لے آؤ۔ لہذا ان پر عذاب الہی کا فیصلہ ہوگیا۔ اللہ نے اپنے خاص فرشتوں کو دنیا کی طرف روانہ کر دیا۔ یہ فرشتے دراصل حضرت میکائیل، جبرائیل اور اسرافیل علیہ السلام تھے پھر یہ فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر تشریف لے آئے۔

 حضرت لوط نے جب ان خوبصورت نوعمر لڑکوں کو دیکھا تو سخت گھبراہٹ اور پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔ انہیں یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ اگر ان کی قوم کے لوگوں نے انہیں دیکھ لیا۔ تو نہ جانے وہ انکے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ حضرت لوط کی بیوی کا نام وائلہ تھا اس نے آپ پر ایمان نہیں لایا تھا اور وہ دراصل منافقہ تھی۔ وہ کافروں کے ساتھ تھی لہذا اس نے جاکر اہل سدوم کو یہ خبر دے دی۔ 

کہ لوط کے گھر دو نوجوان لڑکے مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں یہ سن کر بستی والے دوڑتے ہوئے۔ حضرت لوط کے گھر پہنچے حضرت لوط نے کہا کہ یہ جو میری قوم کی لڑکیاں ہیں یہ تمہارے لیے جائز اور پاک ہیں اللہ سے ڈرو مجھے میرے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں سے کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں، حضرت لوط علیہ السلام کی بات سن کر وہ لوگ بولے

 تم بخوبی واقف ہو کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کوئی حاجت نہیں اور جو ہماری اصل چاہت ہے اس سے تم بخوبی واقف ہو۔ قوم لوط کے اس شرم سار جواب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ فیل بد میں کس حد تک مبتلا ہو چکے تھے جب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم ان کے گھر کی طرف دوڑتی ہوئی آئی تو حضرت لوط نے گھر کے دروازے بند کر دیے اور ان نوجوانوں کو ایک کمرے میں چھپا دیا۔ 

ان بدکار لوگوں نے آپ کے گھر کا گھیراؤ کیا ہوا تھا اور ان میں سے کچھ گھر کے دیوار پر بھی چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے حضرت لوط علیہ السلام اپنے مہمانوں کی عزت کے خیال سے بہت زیادہ گھبرائے ہوئے تھے فرشتے یہ سب منظر دیکھ رہے تھے جب انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی بے بسی اور پریشانی کا یہ عالم دیکھا۔ تو حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے یوں فرمایا۔

 اے لوط ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں یہ لوگ ہرگز تم تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ ابھی کچھ رات باقی ہے تو آپ اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ اہل سدوم حضرت لوط علیہ السلام کے گھر کا دروازہ توڑنے پر بضد تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے گھر سے باہر نکل کر اپنے پر کا ایک کونا انہیں مارا۔ جس سے ان کی آنکھوں کے ڈھیلے باہر نکل آئے

 اور بصارت ظاہر ہوگئی یہ خاص عذاب ان لوگوں کو پہنچا۔ جو حضرت لوط کے پاس بدنیتی سے آئے تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام حقیقت حال جان کر مطمئن ہو گئے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ رات کو ہی نکل کھڑے ہوئے۔ لیکن پھر بھی ان کی بیوی ان کے ساتھ تھی لیکن کچھ دور جا کر وہ واپس اپنے قوم کی طرف پلٹ گئی اور قوم کے ساتھ جہنم واصل ہو گئی۔ 

صبح کا آغاز ہوا تو اللہ کے حکم سے حضرت جبرئیل نے بستی کو اوپر سے اکھاڑ دیا اور پھر اپنے بازو پر رکھ کر آسمان پر چڑھ گئے یہاں تک کہ آسمان والوں نے بستی کے کتے کے بھونکنے اور مرغوں کے بولنے کی آوازیں سنیں۔ پھر اس بستی کو زمین پر دے مارا جس کے بعد ان پر پتھروں کی بارش ہوئی۔ ہر پتھر پر مرنے والے کا نام لکھا ہوا تھا۔ جب یہ پتھر ان کو لگتے تو ان کے سر پاش پاش ہوجاتے۔

 صبح سویرے شروع ہونے والا یہ عذاب اشراک تک پوری بستی کو نیست و نابود کر چکا تھا قوم لوط کی ان خوبصورت بستیوں کو اللہ نے ایک انتہائی بد بو دار اور سیاہ جیل میں تبدیل کردیا۔ جس کے پانی سے رہتی دنیا تک کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ سمندر کے اس حصے میں کوئی جاندار مچھلی، مینڈک وغیرہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس لیے اسے ڈیڈ سی یعنی بہرے مردار کہا جاتا ہے

 جو اسرائیل اور اردن کے درمیان واقع ہے۔ ماہرین آثار نے دس سالوں کی تحقیق و جستجو کے بعد اس تباہ شدہ شہر کو دریافت کیا تھا۔ تحقیقات سے پتہ چلا تھا کہ اس شہر میں زندگی بالکل ختم ہو چکی ہے۔ شہر کے راستے اور کھنڈرات کو دیکھ کر ارکلوجسٹ نے یہ اندازہ لگایا کہ جب یہ شہر تباہ ہوا تو اس وقت لوگ روزمرہ کے معاملات اور کاموں میں مشغول تھے اور یہاں زندگی اچانک ختم ہو گئی تھی
 اہل سدوم جنہیں پتھر بنا دیا گیا تھا۔ ان کے بت ابھی تک بحیرہ مردار کے پاس موجود ہیں جو لوگوں کے لیے ایک عبرت ہے آج یورپی ممالک میں انسانی آزادی کے نام پر اس بدکاری کی اجازت دی جاتی ہے اور اس فحش عمل کو بعاعث فخر سمجھا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم جنس پرستی بالکل فطرت کے خلاف ہے جس سے انسانی معاشرہ تباہ وبرباد ہو جاتا ہے۔
 روایتوں کے مطابق ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے شیطان سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بدترین عمل کیا ہے ابلیس بولا جب مرد مرد سے بدفعلی کرے اور عورت عورت سے خواہش پوری کرے۔ حضرت ابن عباس سے روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص پر اللہ پاک کی لعنت ہو جو قوم لوط والا عمل کرے ۔
تحریر میں کوئی غلطی ہو تو تصحیح فرما دیا کریں شکریہ ۔ خدا اور میں

Wednesday, October 28, 2020

اللّٰہ کی راہ میں صدقہ کرنا

*میرا عزم باشعور پاکستان*


ستاربھائی۔ ۔ ۔ وہ چیونٹیاں مارنے والا پاؤڈر ہے؟ انہوں نے آتے ہی دکاندار سے سوال کیا تھا، جو اسوقت ہمارے لئے کالی مرچ تول رہا تھا۔ 
جی باجی۔ ۔ ۔ ابھی لایا۔ وہ ہماری کالی مرچوں کو چھوڑ کر اندرونی حصے میں چلا گیا اور کچھ دیر بعد کوپیکس پاؤڈر کے گول ڈبے کو جھاڑتا ہوا لے آیا۔ 
یہ کیا ہے ؟ ابّا کے ماتھے پر بل آگئے۔ 
ارے۔ ۔ ۔ شاہ صاحب۔ ۔ ۔ یہ بڑا بہترین پاؤڈر ہے، چیونٹیوں کو مارنے کے لئے۔ ۔ ۔ منٹوں میں چیونٹیوں کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ ۔ ۔ اور یہ انسانی صحت کے لئے مضر بھی نہیں۔ ۔ ۔ میں تو اپنی پوری دکان میں یہی استعمال کرتا ہوں۔ 
ابّا کے استفسار پر ستار بھائی کی آنکھوں میں پاؤڈر والوں کا کمیشن لہرانے لگا۔ 
ہاں ۔ ۔ ۔ وہ تو ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ مگر چیونٹیوں کو کون مارتا ہے بھلا ؟ آخر وہ کسی کا کیا بگاڑتی ہیں؟ ابّا نے حیرانی سے خاتون کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
تو کیا کروں انکل؟ میں تو پریشان ہو گئی ہوں ان چیونٹیوں سے۔ ۔ ۔ بچوں والا گھر ہے میرا۔ ۔ ۔ شوہر سے کہا تو انہوں نے بھی جھاڑ پلا دی۔ ۔ ۔ کہنے لگے، ''امی کی زندگی میں تو کبھی ہمیں چیونٹیوں نے پریشان نہیں کیا۔ ۔ ۔ کیونکہ وہ گھر کو بالکل صاف رکھا کرتی تھیں'' ۔ ۔ ۔  اب آپ ہی بتائیں۔ ۔ ۔ آپ کو کیا لگتا ہے؟ کیا میں گھر کی صفائی نہیں کرتی ہونگی؟ کیا میں آپ کو ایسی پھوہڑ دکھائی دیتی ہوں؟ 
خاتون نے نہ صرف اپنا دکھڑا رونا شروع کردیا، بلکہ ابّا سے سوالات بھی کرنا شروع کردئے۔
 اور ابّا جو ان سوالات کے لئے بالکل تیار نہ تھے، ایکدم پریشان ہو گئے۔ 
نہیں بیٹا۔ ۔ ۔ میں تو بس یہ کہہ رہا ہوں کہ ۔ ۔ ۔ چیونٹیوں سے نجات کے لئے تم ایک مٹھی آٹا ڈال دیا کرو۔ ۔ ۔ یہ بیچاری ننھی مخلوق تو صرف رزق کے لئے باہر آتی ہے۔ ۔ ۔ اور بس۔ ۔ ۔!
ابّا کے لہجے میں زمانے بھر کی شفقت دیکھ کر،  خاتون نے غیر محسوس انداذ میں دوپٹہ سر پر لے لیا۔ 
جی جی انکل۔ ۔ ۔ مگر کیا اس سے چیونٹیوں سے چھٹکارہ مل جائے گا؟ وہ اب بھی غیر یقینی انداذ میں ابّا سے پوچھ رہی تھیں۔
کیوں نہیں بیٹا۔ ۔ ۔ پرانے زمانے سے یہی رواج چلا آرہا ہے۔ ۔ ۔ اِدھر گھر میں چیونٹیاں نظر آئیں، اور اُدھر بڑی بوڑھیوں نے مٹھی بھر آٹا کونوں میں ڈال دیا۔ ۔ ۔ چیونٹیوں سے بھی نجات۔ ۔ ۔ اور صدقے کی نیکی مفت میں۔ 
ابّا ہنسنے لگے تو خاتون کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی۔
چلیں میں بھی پھر۔ ۔ ۔ آٹا۔ ۔ ۔ ہی ٹرائے کرتی ہوں۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے کوپیکس پاؤڈر وہیں کاؤنٹر پر رکھ کر واپسی کے لئے مڑ گئیں۔
 اور ستاربھائی نے ابّا کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کالی مرچوں کو تولنا شروع کردیا۔ 
ابّا۔ ۔ ۔ تم نے ستار بھائی کی دکانداری خراب کردی ۔  
واپسی پر میں نے ابّا سے ہنستے ہوئے کہا۔ 
نہیں بیٹا۔ ۔ ۔ یہ بات نہیں۔ ۔ ۔  ہمارے گھروں سے برکتیں اسی لئے اٹھ گئی ہیں ۔ ۔ ۔  لوگ اللّہ کی مخلوق کا خیال رکھنا بھول چکے ہیں۔ ۔ ۔ پہلے کسی گھر کے سامنے کُتا بھی آکر بیٹھ جاتا تھا، تو گھر کی خواتین اسکے سامنے بھی کچھ نہ کچھ بچا کھچا سالن روٹی رکھ دیا کرتی تھیں۔ ۔ ۔ مگر اب ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ اب ۔ ۔ ۔ روٹیاں بھی گن کر پکائی جاتی ہیں۔ ۔ ۔ برکتیں کہاں سے آئیں گی پھر؟ ۔ ۔ ۔ اس قوم پر بومب نہ گریں۔ ۔ ۔ زلزلے نہ آئیں۔ ۔ ۔ سیلاب نہ آئیں۔ ۔ ۔  تو اور کیا ہو؟
ابّا تاسف کے اظہار کے ساتھ ساتھ مجھے آسان زندگی کے گُر سمجھانے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔ 
عرصہ گذر گیا۔ ۔ ۔ 
میں بھی اس واقعے کو بھول گیا۔
پھر ایک دن بڑے بھائی جان کے ہاں جانا ہوا۔ ابھی ڈور بیل بجانے ہی لگا تھا کہ، چڑیوں کے جُھنڈ کے اڑنے کی زوردار آواز کانوں میں پڑی، چونک کر اوپر دیکھا تو پتہ چلا کہ مین گیٹ کے دونوں جانب مٹی کے کُونڈے رکھے تھے، اور ان کُونڈوں سے چند لمحے قبل یقیناً وہ چڑیاں دانہ چگ رہی تھیں ۔ ۔ ۔ اور اب میری آمد سے ڈر کر اانہوں نے اڑان بھری تھی۔ مگر ابھی بھی۔ ۔ ۔ وہ اڑ کر دور نہیں گئیں تھیں۔ ۔ ۔ بلکہ اوپری مُنڈیر پر اِدھر اُدھر پھدک کر میرے جانے کا انتظار کر رہی تھیں۔ 
بھتیجی نے دروازہ کھولا تو میں اندر داخل ہوگیا۔ 
یہ کیا ؟۔ ۔ ۔ اتنی ساری چڑیاں۔ ۔ ۔؟ میں نے سلام کے بعد خوشگوار حیرت سے بھابھی سے پوچھا۔ جو کچن کی کھڑکی سے کھانا پکاتے ہوئے مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔ 
تمہارے بھائی جان نے رکھے ہیں یہ کُونڈے لا کر۔ ۔ ۔ چڑیوں کے دانے کے لئے۔ 
وہ معنی خیز انداز میں بڑی بھتیجی کو دیکھ کر مسکرائیں تو مجھے اچنبھا سا محسوس ہوا۔ 
شام کو بھائی جان آئے تو مجھ سے رہا نہ گیا۔
بھائی جان۔ ۔ ۔ یہ چڑیوں کے لئے دانہ رکھنے کی کوئی خاص وجہ ہے کیا؟ 
نہیں بس ۔ ۔ ۔ ایسے ہی ۔ ۔ ۔ اچھا ہوتا ہے۔ ۔ ۔صدقہ دیتے رہنا چاہئے۔ 
بھائی جان نے آہستہ سے سمجھایا۔ ۔ ۔ یہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ ۔ ۔ خصوصًا جس گھر میں بیٹیاں ہوں۔ ۔ ۔ پھر بتانے لگے کہ
 کسی بزرگ کے پاس ایک شخص نے آکر بتایا کہ وہ غریب آدمی ہے اور پریشان ہے کہ اپنی جوان بیٹیوں کی شادی کس طرح کر پائے گا، کیونکہ غربت کی وجہ سے کوئی اسکی بیٹیوں سے شادی کرنے کو تیار نہیں۔ 
بزرگ نے مشورہ دیا کہ۔ ۔ ۔ روز دو سو بھوکوں کو کھانا کھلاؤ۔ ۔ ۔ تمہارا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ 
غریب آدمی مارے احترام کے بزرگ کو تو کچھ نہ بول پایا، البتہ آستانے سے باہر آکر زاروقطار رونے لگا۔ 
پاس سے گذرتے کسی دانا نے پوچھا روتے کیوں ہو؟
غریب نے جواب دیا ۔ ۔ ۔ غربت نے پہلے ہی مار مار کر ادھ موا کیا ہوا ہے۔ ۔ ۔ اور سرکار نے فرمایا ہے کہ ۔ ۔ ۔ روز دو سو بھوکوں کو کھانا کھلاؤ ۔ ۔ ۔ تب بیٹیوں کی شادی ممکن ہوگی۔ 
دانا آدمی مسکرا کر بولا
بھلے آدمی۔ ۔ ۔ بھوکا کیا صرف انسان ہوتا ہے؟ اللّہ کی مخلوق ۔ ۔ ۔ چھوٹی ہو یا بڑی ۔ ۔ ۔ بھوک تو سب کو ستاتی ہے۔ ۔ ۔ اگر تم ایک مٹھی آٹا بھی چیونٹیوں کو ڈال دو گے تو سمجھو تمہارا صدقہ ہوگیا۔ 
دانا آدمی تو یہ کہہ کر اپنی راہ چل دیا۔ ۔ ۔ اور غریب اپنی ناقص عقل پر ہنستے ہوئے اپنے گھر کو چلا۔ کچھ عرصے بعد ہی صدقے کی برکات سے نہ صرف وہ اپنی بیٹیوں کے فرائض سے سبکدوش ہوا بلکہ گھر میں بھی خوشحالی آگئی۔ 
بھائی جان جس وقت یہ واقعہ ہم کو سنا رہے تھے۔ ۔ ۔ مجھے ابا کی ''مٹھی بھر آٹے'' والی بات یاد آرہی تھی۔ 
میں نے آنے والے دنوں میں دیکھا کہ بھائی جان نے اپنی چاروں بیٹیوں کی شادیاں ان کی صحیح عمر میں ۔ ۔ ۔ بالکل درست موقعے پر کر دیں۔ 
شاید اسی لئے۔ ۔ ۔ جب میں نے اپنا گھر لیا تو سب سے پہلے اپنے دروازے کے پاس چڑیوں کے لئے دانہ رکھ دیا۔ 
کئی بار گھر بدلا۔ ۔ ۔ ہر بار یہ چڑیاں، کبوتر اور کوّے میرے رزق کی آسانیوں کا سبب بنتے رہے۔
 بیماریاں بھی آئیں۔ ۔ ۔ 
پریشانیوں نے بھی گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی۔ ۔ ۔ مگر ہمیشہ یہ پرندے مجھے آسرا دیتے رہے۔ ۔ ۔
 اِنّا مَعَ العُسرِ یُّسرًا ۔ ۔ ۔ کے معنی سمجھاتے رہے۔ ۔ ۔ اللّہ رب العزت کی بڑائی کا یقین دلاتے رہے۔ 
الحمداللہ۔ ۔ ۔ 
ثُمَّ الحمداللہ۔ ۔ ۔ 
میں نے آج تک اپنے بچوں کا بہتا خون نہیں دیکھا۔ ۔ ۔ انہیں کسی تکلیف سے تڑپتے نہیں دیکھا۔ 
ایک وقت ایسا بھی آیا جب میرے گھر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ۔ ۔ ۔ ہماری مرغی کُڑک ہوجانے کے باوجود انڈوں پر کیوں نہیں بیٹھ رہی ہے۔ ۔ ۔ اور یہ وہ دور تھا۔ ۔ ۔ جب میرا گھر ''کبوتروں والا گھر'' کے نام سے مشہور ہوچکا تھا۔ 
یقین مانئیے۔ ۔ ۔ کہ یہ تمام باتیں اس لئے نہیں لکھی ہیں کہ نعوذ بااللہ۔ ۔ ۔ ۔ میں اپنی نیکیوں کا پرچار کرنا چاہتا تھا۔ ۔ ۔ بلکہ میں اس راز کو کھول کر بیان کرنا چاہتا ہوں جو سوال کی صورت میں مجھ سے اکثر کیا جاتا ہے کہ ۔ ۔ ۔  آخر کیسے گذا را کر لیتے ہو؟۔ ۔ ۔ ہم سے تو نہیں ہوتا۔ 
میں نے اپنی زندگی کو اسی ننھی مخلوق کی خدمت کرکے آسان بنایا ہے۔ 
تمام بڑائیاں اس رب کے لئے جس نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں یہ کر سکوں۔
اللّہ ہم سب کو صدقات کی توفیق دے ۔ آمین

شان نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع خمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے ہوئے اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکت شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف نظارہ کو جمع ہو جاتی تھی ، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔ بادشاہ حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کر کے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے۔ یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروا دوں گا، یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا اور ایسا بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی اس مرض کا علاج کیا گیا مگر افاقہ نہ ہوا، شام کے وقت بادشاہ ہی علماء میں سے ایک عالم ربانی تشریف لائے اور نبض دیکھ کر فرمایا ، مرض آسمانی ہے اور علاج زمین کا ہو رہا ہے، اے بادشاہ! آپ نے اگر کوئی بری نیت کی ہے تو فوراً اس سے توبہ کریں، بادشاہ نے دل ہی دل میں بیت اللہ شریف اور خدام کعبہ کے متعلق اپنے ارادے سے توبہ کی ، توبہ کرتے ہی اس کا وہ خون اور مادہ بہنا بند ہو گیا، اور پھر صحت کی خوشی میں اس نے بیت اللہ شریف کو ریشمی غلاف چڑھایا اور شہر کے ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے نذر کئے۔
پھر یہاں سے چل کر مدینہ منورہ پہنچا تو ہمراہ ہی علماء نے جو کتب سماویہ کے عالم تھے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انھوں نے پڑھی تھیں ، ان کے مطابق اس سر زمین کو پایا تو باہم عہد کر لیا کہ ہم یہاں ہی مر جائیں گے مگر اس سر زمین کو نہ چھوڑیں گے، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو کبھی نہ کبھی جب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں گے ہمیں بھی زیارت کا شرف حاصل ہو جائے گا ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور کبھی نہ کبھی ان کی جوتیوں کی مقدس خاک اڑ کر پڑ جائے گی جو ہماری نجات کے لئے کافی ہے۔
یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کے واسطے چار سو مکان بنوائے اور اس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس حضور کی خاطر ایک دو منزلہ عمدہ مکان تعمیر کروایا اور وصیت کر دی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو یہ مکان آپ کی آرام گاہ ہو اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور کہا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمھیں حضور کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتٰی کہ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جائے یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے چل دیا۔
وہ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس مین ایک ہزار سال بعد پیش ہوا کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا ؟سنئیے اور عظمت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دیکھئے:
"کمترین مخلوق تبع اول خمیری کی طرف سے شفیع المزنبین سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اما بعد: اے اللہ کے حبیب! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے دین پر ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت اور اگر میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں۔"
شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً ان چار سو علماء کے اندر حرزِ جان کی حثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا، ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی کی تحویل میں رکھا اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ کی الوداعی گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق در جوق آ رہے تھے اور کوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اور سڑکوں کو صاف کر رہا تھا اور کوئی دعوت کا انتظام کر رہا تھا اور سب یہی اصرار کر رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہو گی، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع خمیری نے حضور کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی تحویل میں تھا ، اسی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی۔ لوگوں نے ابو لیلٰی کو بھیجا کہ جاؤ حضور کو شاہ یمن تبع خمیری کا خط دے آو جب ابو لیلٰی حاضر ہوا تو حضور نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلٰی ہے؟ یہ سن کر ابو لیلٰی حیران ہو گیا۔ حضور نے فرمایا میں محمد رسول اللہ ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلٰی نے وہ خط دیا، حضور نے پڑھ کر فرمایا، صالح بھائی تُبّع کو آفرین و شاباش ہے۔
سبحان اللہ!) صلی اللہ علیہ وسلم
بحوالہ کُتب: (میزان الادیان)(کتاب المُستظرف)(حجتہ اللہ

Thursday, April 23, 2020

الله تعالٰی کی مدد

سعودى عرب کے شہر بریدہ میں پیش آنے والا ایک سچا واقعہ ایک سعودی تاجر کا بیان کردہ ہے کہ میں اور میرا دوست سعود شہر بریدہ میں تجارت کرتے تھے ایک دن میں جمعہ کی نماز کے لیے بریدہ کی مسجد الکبیر میں گیا نماز جمعہ کے بعد جنازہ کا اعلان ہوا نماز جنازہ ادا کی گئی لوگوں نے ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کر دیا کہ یہ جنازہ کس کا ہے؟؟؟ پتہ چلا کہ یہ جنازہ میرے ہی دوست سعود کا ہے جو گزشتہ رات دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا تھا مجھے سُن کر انتہائی صدمہ پہنچا یہ 1415ھ یعنی کئی برس پہلے کی بات ہے اس وقت ابھی موبائل فون عام نہیں ہوا تھا - چند مہینے گزرنے کے بعد وہاں کے ایک دکاندار نے مجھ سے بات کی کہ مرحوم سعود کے ذمے میرے 3 لاکھ ریال ہیں تو آپ میرے ساتھ چلیں ہم جا کر اس کے بیٹوں سے بات کریں اور یہ بات پہلے سے میرے علم میں تھی کہ سعود کے ذمہ یہ قرض ھے چنانچہ ہم مرحوم کے بیٹوں سے جا کر ملے بات چیت ہوئی تو انہوں نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے رقم لوٹانے سے صاف انکار کردیا  اور کہا کہ ہمارے باپ نے تو صرف 6 لاکھ ریال چھوڑا ہے اگر 3 لاکھ ہم آپ کو دیتے ہیں تو پھر ہمارے پاس کیا بچے گا - اس دور میں بہت سا لین دین باہم اعتماد پر ہوتا تھا چنانچہ ہم واپس آ گئے، یوں  وقت گزرتا گیا لیکن ہر وقت مجھے سعود کی یاد ستاتی رہی یہی سوچتا رہا کہ نہ جانے قرض نہ چکانے کی وجہ سے قبر میں اس کے ساتھ کیا بیت رہی ہو گی- ایک دن میں نے اپنے پیارے دوست کا قرض اتارنے کا عزم کر لیا اس ارادے کے بعد پھر مجھے دو دن تک نیند نہیں آئی جب بھی میں سونے کے لئے آنکھیں بند کرتا تو سعود کا مسکراتا چہرہ میرے سامنے آ جاتا گویا وہ میری مدد کا منتظر ہو تیسرے دن میں نے اپنے عزم کو عملی جامہ پہناتے ہوے اپنی دکان سامان سمیت فروخت کر دی اور دیگر جمع پونجی اکٹھی کی تو میرے پاس 4 لاکھ پچاس ہزار ریال جمع ہو گئے تو فورا 3 لاکھ ریال سے دوست کا قرض ادا کیا جس سے مجھے دلی سکون ملا اس ادائیگی کے 2 ہفتے بعد وہی شخص جس کو میں نے 3 لاکھ ادا کئے تھے میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے پتا چلا ہے کہ آپ نے اپنا سب کچھ بیچ کر یہ پیمنٹ کی ہے لہذا میں 1 لاکھ ریال سے دستبردار ہوتا ہوں، یہ کہ کر اس نے 1 لاکھ ریال مجھے واپس کر دیا اور مارکیٹ میں دوسرے تاجروں کے ساتھ بھی اس واقعہ کا تذکرہ کیا کہ مخلص دوست نے کمال کی مثال قائم کر دی ہے چند دن گزرے کہ ایک تاجر کا فون آیا اسنے پیشکش کی کہ میرے پاس دو دکانوں پر مشتمل ایک سٹور ہے جو میں آپ کو بلا معاوضہ دینا چاہتا ہوں میں نے اس کی پیشکش کو قبول کیا مزدور لگا کر دکانوں کی صفائی کی اسی دوران سامان سے لدا ہوا ایک بڑا ٹرک دکانوں کے سامنے آ کر رکا جس میں سے ایک نوجوان نیچے اترا سلام کے بعد کہنے لگا کہ میں فلاں تاجر کا بیٹا ہوں یہ سامان میرے ابا جان نے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ سامان بیچ کر اس کی نصف قیمت آپ ہمیں لوٹا دینا اور باقی آدھا مال ہماری طرف سے گفٹ ہے اور آئندہ جتنے مال کی ضرورت ہو ہم سے ادھار لے کر فروخت کر کے پیمنٹ کر دیا کریں لوگ جنہیں میں جانتا نہیں تھا چاروں طرف سے میرے ساتھ تعاون کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور تھوڑے ہی عرصے میں میرا بزنس پہلے سے دگنا ہو گیا المختصر 1436ھ کے رمضان المبارک میں، میں نے 3 ملین ریال اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی ہے يہ كوئی افسانہ نہیں بلکہ حقیقی واقعہ ہے 
سید کائنات رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان گرامی کس قدر سچا ھے کہ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ھے الله تعالٰی بھی اس کی مدد کرتا رہتا ھے ـ آپ کے ساتھ یا آپ کے مشاہدے میں کبھی ایسا واقعہ ہوا؟؟؟

مقصدِ زندگی

ایک عالم اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لئے کھیتوں میں سے گزر رہے تھے۔
چلتے چلتے ایک پگڈنڈی پر ایک بوسیدہ جوتا دکھائی دیا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ کسی بڑے میاں کا ہے۔ قریب کے  کسی کھیت کھلیان میں مزدوری سے فارغ ہو کر اسے پہن کر گھر کی راہ لیں گے۔ شاگرد نے جنابِ شیخ سے کہا؛ حضور! کیسا رہے گا کہ تھوڑی دل لگی کا سامان کرتے ہیــــں۔ جوتا ادھر ادھر کر کے خود بھی چھپ جاتے ہیــــں۔ وہ بزرگوار آن کر جوتا مفقود پائیں گے تو ان کا ردِ عمل دلچسپی کا باعث ہو گا۔
 شیخ کامل نے کہا؛ بیٹا اپنے دلوں کی خوشیاں دوسروں کی پریشانیوں سے وابستہ کرنا کسی طور بھی پسندیدہ عمل نہیـں۔ بیٹا تم پر اپنے رب کے احسانات ہیــــں۔ ایسی قبیح حرکت سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اپنے رب کی ایک نعمت سے تم اس وقت ایک اور طریقے سے خوشیاں اور سعادتیں سمیٹ سکتے ہو۔ اپنے لئے بھی اور اس بیچارے مزدور کے لئے بھی۔ ایسا کرو کہ جیب سے کچھ نقد سکے نکالو اور دونوں جوتوں میں  رکھ دو۔ پھر ہم چھپ کے دیکھیں گے جو ہو گا۔ بلند بخت شاگرد نے تعمیل کی اور استاد و شاگرد دونوں جھاڑیوں کے پیچھے دبک گئے۔

 کام ختم ہوا، بڑے میاں نے آن کر جوتے میں پاؤں رکھا ۔۔۔ تو سکے جو پاؤں سے ٹکرائے تو ایک ہڑبڑاہٹ کے ساتھ جوتا اتارا تو وہ سکے اس میں سے باہر آ گئے۔ ایک عجیب سی سرشاری اور جلدی میں دوسرے جوتے کو پلٹا تو اس میں سے سکے کھنکتے باہر آ گئے۔ اب بڑے میاں آنکھوں کو ملتے ہیــــں، دائیں بائیں نظریں گھماتے ہیــــں۔ یقین ہو جاتا ہے کہ خواب نہیـں، تو آنکھیں  تشکر کے آنسوؤں سے بھر جاتی ہیــــں۔ بڑے میاں سجدے میں گر جاتے ہیــــں۔ استاد و شاگرد دونوں سنتے ہیــــں کہ وہ اپنے رب سے کچھ یوں مناجات کر رہے ہیــــــــں۔
میرے مولا! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں، تو میرا کتنا کریم رب ہے۔ تجھے پتہ تھا کہ میری بیوی بیمار ہے، بچے بھی بھوکے ہیــــں، مزدوری بھی مندی جا رہی ہے ۔۔۔ تو نے کیسے میری مدد فرمائی۔ ان پیسوں سے بیمار بیوی کا علاج بھی ہو جائے گا، کچھ دنوں کا راشن بھی آ جائے گا۔ ادھر وہ اسی گریہ و زاری کے ساتھ اپنے رب سے محو مناجات  تھے اور دوسری طرف استاد و شاگرد دونوں کے ملے جلے جذبات اور ان کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ کچھ دیر کے بعد شاگرد نے دست بوسی کرتے ہوئے عرض کیا؛ استاد محترم! آپ کا آج کا سبق کبھی نہیـں بھول پاؤں گا۔ آپ نے مجھے مقصدِ زندگی اور اصل خوشیاں سمیٹنے کا ڈھنگ بتا دیا ہے۔ شیخ جی نے موقعِ مناسب جانتے ہوئے بات بڑھائی، بیٹا! صرف پیسے دینا ہی عطا نہیں بلکہ باوجود قدرت کے کسی کو معاف کرنا ﻋﻄﺎﺀ ہے۔ مسلمان بھائی بہن کے لئے غائبانہ دعا  ﻋﻄﺎﺀ ہے۔  مسلمان بھائی بہن کی عدم موجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت ﻋﻄﺎﺀ ہے۔
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ اوروں کو بھی شریک کریں, یہ صدقہ جاریہ ہوگا, اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو .. جزاک اللہ خیرا

Wednesday, April 22, 2020

اولیاء اللہ کونِ ہیں؟

یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور ﴿برائیوں سے﴾ پرہیز رکھتے ہیں۔
سورة یونس آیت 62۔63
اولیاء ولی کی جمع ہے جس کے معنی لغت میں قریب کے ہیں اس اعتبار سے اولیاءاللہ کے معنی ہوں گے وہ سچے اور مخلص مومن جنہوںنے اللہ کی اطاعت کی اور معاصی سے اجتناب کر کے اللہ کا قرب حاصل کرلیا اسی لیے اگلی آیت میں خود اللہ تعالی نے بھی ان کی تعریف ان الفاظ سے بیان فرمائی جو ایمان لائے اورجنہوں نے تقوی اختیار کیا۔ ایمان و تقوی ہی اللہ کے قرب کی بنیاد اور اہم ترین
ذریعہ ہے اس لحاظ سے ہر متقی مومن اللہ کا ولی ہے۔ لوگ ولایت کے لیے اظہارکرامت کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اور پھر وہ اپنے بنائے ہوئے ولیوں کے لیے جھوٹی سچی کرامتیں مشہور کرتے ہیں یہ خیال بالکل غلط ہے کہ کرامت کا ولایت سے چولی دامن کا ساتھ ہے نہ اس کے لیے شرط
یہ ایک الگ چیز ہے کہ اگر کسی سے کرامت ظاہر ہو جائے تواللہ کی مشیت ہے اس میں اس بزرگ کی مشیت شامل نہیں ہے لیکن کسی متقی مومن اور متبع سنت سے کرامت کا ظہور ہو یا نہ ہو اس کی ولایت میں کوئی شک نہیں۔
تمام مومنین ومتقین بھی اولیاء اللہ ہیں اولیاء اللہ کوئی الگ مخلوق نہیں ہاں البتہ اولیاءاللہ کے درجات میں فرق ہے۔
حدیث میں ہے۔ جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی رکھی اس نے میرے ساتھ اعلان جنگ کیا۔﴿صحیح بخاری کتاب لرقاق باب التواضع﴾
گویا اللہ کے کسی ایک ولی سے دشمنی سارے اولیاءاللہ سے بلکہ اللہ تعالی سے بھی دشمنی ہے۔
اس سے واضح ہوا کہ اولیاءاللہ کی محبت اور ان کی تعظیم نہایت ضروری اور ان سے بغض و عناد اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالی اسے کے خلاف اعلان جنگ فرماتا ہے۔
لیکن محبت اورتعظیم کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی قبروں پر گنبد اور قبے بنائے جائیں ان کی قبروں پر سالانہ عرس کے نام پر میلوں ٹھیلوں کا اہتمام کیا جائے ان کے نام کی نزرونیاز اور قبروں کو غسل دیا جائے اوران پر چادریں چڑھائی جائیں اور انہیں حاجت روا مشکل کشا نافع و ضار سمجھا جائے ان کی قبروں پر دست بستہ قیام اور ان کی چوکھٹوں پر سجدہ کیا جائے وغیرہ جیسا کی بدقسمتی سے اولیاءاللہ کی محبت کے نام پر یہ کاروبار لات ومنات فروغ پزیر ہے حالانکہ یہ محبت نہیں ہے ان کی عبادت ہے جو شرک اور ظلم عظیم ہے اللہ تعالی اس فتنہ عبادت قبور سے محفوظ رکھے۔ آمین

اللہ تعالیٰ کے دوست............

اللہ عزو جل جسے اپنا محبوب بنالے اسے دین اسلام کا خادم بنا دیتا ہے۔ وہ لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اللہ کے لیے قربانی کرتے ہیں اللہ کے لیے جیتے ہیں اور اللہ کے لیے ہی مرتے ہیں ایسے لوگ جب یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے تو پھر اس پر قائم بھی رہتے ہیں ان پر اللہ کی طرف سے فرشتے اترتے ہیں ان کے لیے نہ دنیا میں کوئی ڈر ہے اور نہ آخرت میں وہ غمگین ہوگے۔ اور ان کے لیے اللہ کے ہاں ایک بہترین مقام جنت ہے جس کا ان کے لیے وعدہ ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللہ عز وجل ان کا دوست ہے۔اور ان کے لیے آخرت میں جو کچھ مانگیں اس کا ان کے رب کی طرف سے وعدہ ہے ۔ چونکہ وہ اللہ کے دوست اور اللہ ان کا دوست ہے لہذا ان کے نیک کاموں کا صلہ انہیں ظاہری زندگی ختم ہو جانے کے بعد ملتا ہے۔کیونکہ اللہ نے ان کے ساتھ اپنی دوستی کا وعدہ دونوں جہانوں میں فرمایا ہے۔انہیں انبیاء کرام علیھم السلام، صدیقین، شہیداء اور صالحین کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا اور یہ اللہ کا فضل ہی تو ہے کہ نیک لوگ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب اور کامران ہیں۔ جب ایسے لوگوں کے لیے اللہ کے انعامات اس قدر ہیں تو وہ بخشش و مغفرت کے بھی ضرور حق دار ہیں
اللہ عز وجل قرآن مجید میں ان نیک لوگوں کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرماتا ہے اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔
’’اور جسے اللہ راہ دکھانا چاہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہے اس کا سینہ تنگ خوب رکا ہوا کر دیتا ہے گویا کسی کی زبردستی سے آسمان پر چڑھ رہا ہے ، اللہ یونہی عذاب ڈالتا ہے ایمان نہ لانے والوں کو۔ اور یہ تمہارے رب کی سیدھی راہ ہے ہم نے آیتیں مفصل بیان کر دیں نصیحت ماننے والوں کے لیے۔ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے اپنے رب کے یہاں اور وہ ان کا مولیٰ ہے یہ ان کے کاموں کا پھل ہے۔‘‘
سورۃ الانعام آیات 125، 126، 127

’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اْسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے ، اور اللہ کافی ہے جاننے والا۔‘‘
سورۃ النساء آیات 69، 70

’’ایمان والے نیکو کاروں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے‘‘
سورۃ المائدہ آیت 9

’’تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کو اپنا دوست بنائے توبیشک اللہ ہی کا گروہ غالب ہے۔‘‘
سورۃ المائدہ آیات 55، 56

’’سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم ۔وہ جو ایمان لائے اور پرہیز گاری کرتے ہیں ،انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں ، اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے ،اور تم ان کی باتوں کا غم نہ کرو بیشک عزت ساری اللہ کے لیے ہے وہی سنتا جانتا ہے ۔‘‘
سورۃ یونس آیات 62، 63،64،65

’’بیشک وہ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور خوش ہو اس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا ۔ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اور تمہارے لیے ہے اس میں جو تمہارا جی چاہے اور تمہارے لیے اس میں جومانگو۔مہمانی بخشنے والے مہربان کی طرف سے۔اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں۔ اور نیکی اور بدی برابر نہ ہو جائیں گی، اے سننے والے برائی کو بھلائی سے ٹال جبھی وہ کہ تجھ میں اور اس میں دشمنی تھی ایسا ہو جائے گا جیسا کہ گہرا دوست ۔اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صابروں کو، اور اسے نہیں پاتا مگر بڑے نصیب والا۔‘‘
سورۃ حم السجدہ آیات 30، 31، 32، 33، 34، 35

.... حلقہ ارادت میں وسعت کی حکمت​

اللہ تعالیٰ نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کثرتِ امت عطا کی۔ حدیث پاک ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جنت میں جنتیوں کی 120 صفیں ہو نگیں۔ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی اُمتیں ہیں۔ سب نبیوں کی اُمتوں میں کچھ نہ کچھ اُمتی جنت میں جائیں گے ہر ایک کو حصہ ملے گا۔ فرمایا کل انبیاء کی امت کے جنتی لوگوں کی ٹوٹل صفیں 120 ہونگیں اُن 120 صفوں میں 80 صفیں میری اُمت کی ہونگیں اور باقی ایک لاکھ چوبیس ہزار باقی انبیاء کی اُمتوں میں 40 صفیں تقسیم ہونگیں۔ جس طرح کثرتِ امت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا ہوئی اس طرح حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کو کثرتِ ارادت کی نعمت ملی یعنی سلسلہ قادریہ میں کثیر تعداد میں مریدین عطا کئے گئے۔ اِس کائنات دُنیا میں جتنے مرید حضور غوثِ پاک کے ہوئے اوّل سے آخر تک کسی ولی کے نہ ہوئے اور نہ کبھی ہونگے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھا وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ہیں اور جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے ہو گزرے، ایمان لانے کے خواہشمند تھے مگر کلمہ نہ پڑھ سکے وہ بھی امت میں سے ہیں اور جملہ انبیاء بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت میں سے ہیں۔ اِسی طرح جنہوں نے حضور غوثِ پاک رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ان کے سلسلہ میں بیعت کی وہ بھی اُن کے مریدوں میں اور جو اس سلسلے میں بیعت نہ کر سکے مگر گردن جھکا لی وہ بھی مرید ہو گئے۔ جو زبان سے کہہ دے یا غوث میں آپ کا مرید ہوں وہ غوث پاک کا مرید ہو گیا اور پھر وہ لاج رکھ لیتے ہیں۔ سلسلہ قادریہ سے تعلق رکھنے والے تو حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کے مرید ہیں ہی مگر جملہ سلاسل سلسلہ چشتیہ، نقشبندیہ، سہروردیہ وغیرہ کے مربی و رہنما اور مریدین بھی حضور غوث الاعظم کے مرید اور فیض یافتہ ہیں۔

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا قَدَمِیْ هٰذِه عَلٰی رَقَبَةِ کُلِّ وَلِيَّ اﷲ ’’میرا قدم ہر ولی کی گردن پر ہے‘‘۔ ۔ ۔ یہ نہیں فرمایا کہ مرید کی گردن پر۔ ۔ ۔ یا میرے سلسلے کے ہر ولی کے کندھوں پر ہے۔ ۔ ۔ یہ نہیں کہا۔ ۔ ۔ بلکہ فرمایا ہر ولی کی گردن پر ہے۔ گویا جو حضور غوثِ پاک کو نہ مانے وہ ولی ہو ہی نہیں سکتا اور جو ولی حضور غوثِ پاک کے زیرِ قدم ہونے کا انکار کر دے اگلے ہی لمحے اس سے ولایت سلب ہو جائے گی۔