پچھلے چند سالوں سے ویلنٹائن ڈے کو مسلمان ممالک میں جس جوش و خروش سے منایا جارہا ہے۔ اس سے ہماری ثقافتی اقدار کا تحفظ سخت خطرےسے دوچار ہوگیا ہے۔ نوجوان نسل کے جوش و جذبے کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہےجیسے یہ کوئی نہایت معتبراور ہر دلعزیز تہوار ہے۔ اس روز پھول کی دکانوں پر رش قابل دید ہوتا ہے جیسے یہ کوئی نہایت معتبر اور ہر دلعزیز تہوار ہے۔ اس روز پھول کی دکانوں پر رش قابل دید ہوتا ہے، تحائف اور پھولوں کے تبادلے، موبائل پر محبت کے پیغامات اور انٹرنیٹ پر چیٹنگ کے ہوش ربا مناظر اس کا خاصا ہیں۔ اس روز آوارگی، اوباشی، بے حیائی ، بے ہودگی اور فحاشی اپنے عروج پر ہوتی ہے جبکہ ہماری اسلامی اقدار و روایات ، حیا، عفت و عصمت اور شرافت منہ چھپاتی نظر آتی ہیں۔
آئےدیکھتے ہیں کہ شہوت نفسانی اور ہوس سے بھرپور اس دن کی کیا حیثیت ہے? یہ کب، کیسے اور کہاں سے شروع ہوا? اور کیا اسے بطور ثقافت اپنایا جاسکتا ہے?
آئےدیکھتے ہیں کہ شہوت نفسانی اور ہوس سے بھرپور اس دن کی کیا حیثیت ہے? یہ کب، کیسے اور کہاں سے شروع ہوا? اور کیا اسے بطور ثقافت اپنایا جاسکتا ہے?
ویلنٹائن ڈے کی وجہ تسمیہ
اس دن کو ایک عیسائی پادری سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس دن کو ویلنٹائن سے منسوب کرنے کی ایک خیالی اور غیر حقیقی داستان بیان کی جاتی ہے جو کچھ یوں ہے۔ "تیسری صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نامی ایک پادری تھے۔ انہیں ایک عیسائی راہبہ سے محبت ہوگئی مگر چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبائوں کے شادی کرنے پر پابندی ہے اس لئے ویلنٹائن نے ایک دن اپنی معشوقہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ مجھے خواب میں بشارت دی گئی ہے کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے کہ اگر کوئی راہب یا راہبہ جنسی ملاپ بھی کرلیں تو انہیں گناہ نہیں ہوگا۔ راہبہ نے اس خواب پر یقین کرلیا اور پھر دونوں نے جوش عشق میں وہ سب کچھ کر ڈالا جس کی تمنا ان کے دل میں تھی۔ کلیسا کی روایت کو اس طرح پامال کرنے پر انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد ازاں کچھ جنسی آوارگی کے علم برداروں نے اس "شہید محبت" کا خطاب دے دیا اور اس دن کو "یوم آوارگی" کے طور پر منانا شروع کردیا حالانکہ چرچ ہمیشہ اس کی مذمت کرتا رہا اور اس دن کو منانے سے منع کرتا رہا ہے۔
اس دن کو ایک عیسائی پادری سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس دن کو ویلنٹائن سے منسوب کرنے کی ایک خیالی اور غیر حقیقی داستان بیان کی جاتی ہے جو کچھ یوں ہے۔ "تیسری صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نامی ایک پادری تھے۔ انہیں ایک عیسائی راہبہ سے محبت ہوگئی مگر چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبائوں کے شادی کرنے پر پابندی ہے اس لئے ویلنٹائن نے ایک دن اپنی معشوقہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ مجھے خواب میں بشارت دی گئی ہے کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے کہ اگر کوئی راہب یا راہبہ جنسی ملاپ بھی کرلیں تو انہیں گناہ نہیں ہوگا۔ راہبہ نے اس خواب پر یقین کرلیا اور پھر دونوں نے جوش عشق میں وہ سب کچھ کر ڈالا جس کی تمنا ان کے دل میں تھی۔ کلیسا کی روایت کو اس طرح پامال کرنے پر انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد ازاں کچھ جنسی آوارگی کے علم برداروں نے اس "شہید محبت" کا خطاب دے دیا اور اس دن کو "یوم آوارگی" کے طور پر منانا شروع کردیا حالانکہ چرچ ہمیشہ اس کی مذمت کرتا رہا اور اس دن کو منانے سے منع کرتا رہا ہے۔
اسلام میں تہوار منانے کی حیثیت
اس وقت دنیا میں پچاس کے قریب آزاد مسلمان ممالک ہیں۔ کہنے کو یہ ممالک اور ان میں رہنے والے مسلمان آزاد ہیں مگر فکری اور اخلاقی لحاظ سے تاحال غلام ہیں تو کچھ ہنود کے تابع فرمان۔ ان ممالک میں مسلمانوں کی طرز زندگی دیکھیں ان کی معیشت اور معاشرت دیکھیں یا سال بھر میں منعقد و تہواروں، جشنوں اور تقریبات کو دیکھیں سب میں کفار کی تہذیب کا رنگ نمایاں نظر آئے گا۔
مسلمان قوم سارا سال جشن اور تقریبات میں مشغول نظر آئے گا جبکہ کافر اقوام چند دن کی عیاشی کے سوا سارا سال ملک و قوم کی بہتری کیلئے کام کرتی دکھائی دیں گے۔ کیا یہ سارے جشن اور میلے اسلام میں جائز ہیں? ہرگز نہیں۔
اگر اسلام میں کسی دن کو یوم جشن کے طور پر منایا جانا قابل تحسین ہوتا تو خود امام الانبیا اپنے صحابہ کی معیت میں یوم بدر مناتے کہ جس دن اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کے جانی دشمن کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا یا پھر فتح مکہ کے دن کو یادگاری تہوار کے طور پر منایا جاتا وہ دن کہ جس دن اللہ تعالٰی نے اسلام کو نہایت مضبوط و توانا کردیا اور مخالفین گردنیں جھکائے معافی کے طلب گار بنے کھڑے تھے۔ تاریخ اسلامی ایسے ایسے عظیم واقعات سے بھری پڑی ہے کہ اگر مسلمان قوم ان ایام کو بطور جشن منانا شروع کردے تو سال کے دن کم پڑجائیں گے اور ایام پورے نہ ہونگے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ اور آپ کے صحابہ کرام کا کردار و عمل جشن منانے کے تصور کی نفی کرتا ہے۔ صحیح بخاری میں یہ سبق آموز واقعہ درج ہے کہ یہودیوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ "تم مسلمان اپنی کتاب میں ایک کی تلاوت کرتے ہو اگر وہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہوتی تو ہم اسے جشن وعید بنالیتے" عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کی یہ بات سن کر جواب دیا وہ جشن منانے کی دلدادہ قوم کیلئے زبردست درس عبرت ہے۔ آپ نے فرمایا: ہاں مجھے معلوم ہے کہ وہ آیت کب اور کہاں نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نزول کے وقت کہاں تشریف فرما تھے۔ مجھے سب معلوم ہے یعنی اے یہودیوں! ہمیں سب معلوم ہے مگر تمہاری طرح جشنوں اور میلوں کے دلدادہ نہیں ہیں"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے "میری قبر کو عید گاہ نہ بناؤ" (سنن ابوداؤد) اس حدیث میں وارد لفظ 'عید' کا مطلب عرس اور میلہ ہی ہے۔ اس کی وضاحت کیلئے قاضی ثناءاللہ پانی پتی کی تشریح ملاحظہ ہو۔ "ترجمہ: جاہل لوگ جو کچھ حضرات اولیاء و شہداء کے مزارات پر کرتے ہیں وہ سب ناجائز ہے۔ ان کو سجدہ کرنا، ان کے گرد طواف کرنا، ان پر چراغاں کرنا اور ان کی طرف سجدہ کرنا اور ہر سال میلوں کی طرح ان پر جمع ہونا جس کا نام عرس ہے ، یہ سب ناجائز ہیں"
مذکورہ بالا گزارشات سے معلوم ہوا کہ جشن و میلے اور تہوار منانے کا مسلمانوں کی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ مسلمانوں کو اس سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ لہٰذا جو شخص ویلنٹائن ڈے مناتا ہے اور اس یوم آوارگی میں شرکت کرتا ہے وہ گویا ان کفار سے محبت و موالات کا گہرا اظہار کرتا ہے۔
اس وقت دنیا میں پچاس کے قریب آزاد مسلمان ممالک ہیں۔ کہنے کو یہ ممالک اور ان میں رہنے والے مسلمان آزاد ہیں مگر فکری اور اخلاقی لحاظ سے تاحال غلام ہیں تو کچھ ہنود کے تابع فرمان۔ ان ممالک میں مسلمانوں کی طرز زندگی دیکھیں ان کی معیشت اور معاشرت دیکھیں یا سال بھر میں منعقد و تہواروں، جشنوں اور تقریبات کو دیکھیں سب میں کفار کی تہذیب کا رنگ نمایاں نظر آئے گا۔
مسلمان قوم سارا سال جشن اور تقریبات میں مشغول نظر آئے گا جبکہ کافر اقوام چند دن کی عیاشی کے سوا سارا سال ملک و قوم کی بہتری کیلئے کام کرتی دکھائی دیں گے۔ کیا یہ سارے جشن اور میلے اسلام میں جائز ہیں? ہرگز نہیں۔
اگر اسلام میں کسی دن کو یوم جشن کے طور پر منایا جانا قابل تحسین ہوتا تو خود امام الانبیا اپنے صحابہ کی معیت میں یوم بدر مناتے کہ جس دن اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کے جانی دشمن کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا یا پھر فتح مکہ کے دن کو یادگاری تہوار کے طور پر منایا جاتا وہ دن کہ جس دن اللہ تعالٰی نے اسلام کو نہایت مضبوط و توانا کردیا اور مخالفین گردنیں جھکائے معافی کے طلب گار بنے کھڑے تھے۔ تاریخ اسلامی ایسے ایسے عظیم واقعات سے بھری پڑی ہے کہ اگر مسلمان قوم ان ایام کو بطور جشن منانا شروع کردے تو سال کے دن کم پڑجائیں گے اور ایام پورے نہ ہونگے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ اور آپ کے صحابہ کرام کا کردار و عمل جشن منانے کے تصور کی نفی کرتا ہے۔ صحیح بخاری میں یہ سبق آموز واقعہ درج ہے کہ یہودیوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ "تم مسلمان اپنی کتاب میں ایک کی تلاوت کرتے ہو اگر وہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہوتی تو ہم اسے جشن وعید بنالیتے" عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کی یہ بات سن کر جواب دیا وہ جشن منانے کی دلدادہ قوم کیلئے زبردست درس عبرت ہے۔ آپ نے فرمایا: ہاں مجھے معلوم ہے کہ وہ آیت کب اور کہاں نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نزول کے وقت کہاں تشریف فرما تھے۔ مجھے سب معلوم ہے یعنی اے یہودیوں! ہمیں سب معلوم ہے مگر تمہاری طرح جشنوں اور میلوں کے دلدادہ نہیں ہیں"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے "میری قبر کو عید گاہ نہ بناؤ" (سنن ابوداؤد) اس حدیث میں وارد لفظ 'عید' کا مطلب عرس اور میلہ ہی ہے۔ اس کی وضاحت کیلئے قاضی ثناءاللہ پانی پتی کی تشریح ملاحظہ ہو۔ "ترجمہ: جاہل لوگ جو کچھ حضرات اولیاء و شہداء کے مزارات پر کرتے ہیں وہ سب ناجائز ہے۔ ان کو سجدہ کرنا، ان کے گرد طواف کرنا، ان پر چراغاں کرنا اور ان کی طرف سجدہ کرنا اور ہر سال میلوں کی طرح ان پر جمع ہونا جس کا نام عرس ہے ، یہ سب ناجائز ہیں"
مذکورہ بالا گزارشات سے معلوم ہوا کہ جشن و میلے اور تہوار منانے کا مسلمانوں کی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ مسلمانوں کو اس سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ لہٰذا جو شخص ویلنٹائن ڈے مناتا ہے اور اس یوم آوارگی میں شرکت کرتا ہے وہ گویا ان کفار سے محبت و موالات کا گہرا اظہار کرتا ہے۔
No comments:
Post a Comment