Thursday, November 29, 2012

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تین پیشن گوئیاں

حاتم طائی (جس کو سخاوت میں ضرب المثل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے) کی وفات کے بعد ان کے قبیلے کی سلطنت کی ذمہ داری ان کے بیٹے جناب عدی کو سونپ دی گئی اور پورے قبیلے نے اپنی آمدنی کا چوتھائی حصہ ان کے مخصوص کر دیا اور ان کے حکمران بننے پر خوشی کا اظہار کیا۔
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانیہ طور پر اسلام کی دعوت پیش کی اور عرب جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے تو یہ صورت حال دیکھ کر جناب عدی نے خطرہ محسوس کیا کہ اگر عام لوگ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے متاثر ہوتے رہے تو بالآخر ہماری سلطنت بھی جاتی رہے گی اس لیے انھوں نے اسلام کی اشاعت روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عناد کی انتہا کر دی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت کا یہ سلسلہ بیس سال تک جاری رہا۔ جناب عدیؓ فرماتے ہیں:
جب میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سنا تو میرے دل میں اس قدر نفرت پیدا ہوئی کہ شاید ہی کسی عرب باشندے کے دل میں اس جیسی نفرت پیدا ہوئی ہو ۔ میں اپنے علاقے اور قوم کا ایک باوقار اور معزز فرد تھا اور عقیدتاً نصرانی تھا اور دوسرے عرب بادشاہوں کی طرح میں اپنی رعایا سے ان کے مال کا چوتھائی حصہ وصول کیا کرتا تھا۔پہلے مرحلے پر تو میں نے نفرت اور حقارت کی بنا پر کوئی پروا نہیں کی لیکن جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و شوکت میں اضافہ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کو سرزمین عرب میں چہار سو فتوحات حاصل ہونے لگیں تو پھر میں نے اپنے دل میں خطرہ محسوس کیا اور اونٹ چرَانے والے اپنے غلام سے کہا کہ آج کے بعد چاق و چوبند اور طاقت ور اونٹنیاں ہر دم میرے لیے تیار رکھو، اور وہ ایسی سدھائی ہوئی ہوں کہ سفر میںکوئی تکلیف محسوس نہ ہو اور جوں ہی یہ خبر سنو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر نے سرزمین نجد پر یلغار کر دی ہے فوراً مجھے اطلاع دینا۔
ایک دن صبح سویرے میرا یہی غلام دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ’’اے میرے آقا! اگر لشکر اسلام آپ کے علاقے پر یلغار کر دے تو پھر آپ کیا کریں گے؟‘‘ میں نے گھبراہٹ میں اس سے دریافت کیا ، ’’کیا بات ہے؟‘‘ تو اس نے کہا کہ ’’آج میں نے گھروں میں جھنڈے لہراتے دیکھے ہیں مجھے پتہ چلا ہے کہ آج لشکر اسلام نے ہمارے علاقے پر یلغار کر دی ہے اور متعدد گھروں پر قبضہ کر لیا ہے۔‘‘ میں نے اپنی گرفتاری کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے اسے کہا کہ جلدی سے وہ اونٹنیاں میرے پاس لائو جن کے تیار رکھنے کا میں نے تمھیں حکم دیا تھا اسی وقت وہ اونٹنیاں میرے پاس لائی گئیں اور میں اپنے اہل خانہ کو ان پر سوار کرکے ملک شام کی طرف روانہ ہوگیا تاکہ اپنے ہم مذہب نصرانیت کے علمبردار لوگوں کے پاس سکونت اختیار کر سکوں۔
ہوا یہ کہ میں اس جلد بازی اور گھبراہٹ میں اپنے تمام خاندان کو اس سفر میں ہمراہ نہ لے جا سکا لیکن جب میں خطرناک اور کٹھن راستوں سے گزرا تو بعض افراد راستے میں ہی ہلاک ہوگئے اور اس افراتفری میں میری ہمشیرہ نجد ہی میں رہ گئیں اس کو اپنے ساتھ نہ لاسکا جس کا مجھے بہت زیادہ دلی صدمہ تھا لیکن اب میرے لیے واپس لوٹنے کی بھی کوئی صورت نہ تھی ۔ اسی غم میں غلطاں و پریشاں کٹھن راستوں سے گزرتا ہوا ملک شام پہنچ گیا اور وہاں مستقل سکونت اختیار کرلی یہاں نصرانیت کا غلبہ دیکھ کہ مجھے دلی مسرت حاصل ہوئی لیکن اپنی ہمشیرہ کی جدائی اور اسے پیش آنے والے خطرات کا صدمہ مسلسل دامن گیر رہا۔
مجھے یہ اطلاع ملی کہ میرے وہاں سے کوچ کر آنے کے بعد لشکر اسلام نے ہمارے گھروں پر حملہ کیا اور وہ پورے علاقے کو فتح کرنے کے بعد میری بہن کو دیگر قیدیوں کے ساتھ گرفتار کرکے یثرب لے گئے ہیں اور انھیں مسجد کے ایک دروازے کے ساتھ ملحقہ حوالات میں بند کر دیا گیا ہے۔
مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز میری بہن کے پاس سے گزرے تو میری بہن پکارا اٹھی یا رسول اﷲ! میرا باپ فوت ہوچکا ہے اور میرا نگران آنکھوں سے اوجھل ہے مجھ بے چاری پر احسان کیجئے اﷲ آپ پر احسان کرے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تیرا نگران کون ہے اس نے بتایا کہ میرا بھائی عدی بن حاتم طائی آپ نے فرمایا وہ جو اﷲ و رسول سے راہ فرار اختیار کر چکا ہے پھر آپ چل دیئے اور میری بہن کو اسی حالت میں رہنے دیا۔
جب دوسرا دن ہوا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر میری بہن کی جانب سے ہوا تو اس نے چھٹکارے کے لیے دوبارہ اپنی معروضات پیش کیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حسب سابق جواب دیا، جب تیسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں سے گزرا تو میری بہن مایوسی کی وجہ سے خاموش تھی تو پیچھے سے ایک شخص نے اشارہ کیا آج رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں اپنی معروضات پیش کرو چنانچہ میری بہن کو حوصلہ ہوا اور اٹھ کر یہ عرض پیش کی یا رسول اﷲ والد فوت ہوگیا ہے اور نگران آنکھوں سے اوجھل ہے مجھ پر احسان کریں اﷲ آپ پر احسان کرے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج سے تو آزاد ہے تو اس نے عرض کیا میں سرزمین شام میں مقیم اپنے خاندان کے پاس جانا چاہتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جلد بازی سے کام نہ لے جب تک تجھے اپنی قوم کا ایسا کوئی قابل اعتماد شخص نہ ملے جو تجھے ملک شام تک حفاظت سے پہنچانے کی ذمہ داری قبول کرے اس وقت تک یہ سفر اختیار نہ کرنا اور جب کوئی ایسا شخص مل جائے تو مجھے بتانا۔‘‘
اس کے بعد ہمیں وقتاً فوقتاً ہمشیرہ کے متعلق مختلف خبریں پہنچتی رہیں اور ہم شدت سے اس کی آمد کا انتظار کرنے لگے لیکن ہمیں رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ہمشیرہ کے ساتھ حسن سلوک کی جو خبریں پہنچ رہی تھیں دل اسے تسلیم نہیں کرتا تھا کیوں کہ مجھے اس بات کا احساس تھا کہ میں نے اپنے دور حکومت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی اچھا برتاؤ نہیں کیا تھا ۔ ایک روز میں اپنے اہل خانہ میں بیٹھا تھا اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عورت اونٹنی پر بیٹھی آہستہ آہستہ ہماری طرف آرہی ہے اسے دیکھ کر میں پکار اٹھا یہ تو حاتم کی بیٹی معلوم ہوتی ہے اور وہ حقیقت میں بھی وہی تھی۔ اور جب وہ ہمارے پاس پہنچی تو غصے سے مجھ پر برس پڑی اور مجھے بے پروا، ظالم اور بے وفا قرار دیتے ہوئے کہنے لگی کیا تجھے شرم نہ آئی کہ اپنے بیوی بچوں کو تو ساتھ لے آیا اور اپنے باپ کی آبرو اور اپنی عزت کو وہیں چھوڑ آیا تیرے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔
میں نے کہا بہن ناراض نہ ہوں اپنی زبان سے خیر کے کلمات نکالیں۔ بیٹھیں کچھ آرام کرلیں، آپ تھکی ہوئی ہیں۔ میں مسلسل اسے نرم لہجے میں راضی کرنے کے لیے کوشاں رہا بالآخر وہ راضی ہوگئی اور پھر اس نے اپنی پوری داستان مجھے سنائی یہ واقعات بالکل اس کے مطابق جو مختلف ذرائع سے مجھے معلوم ہوچکے تھے۔ وہ بڑی دانش مند زیرک اور محتاط عورت تھی میں نے اس سے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس کی رائے معلوم کی تو اس نے مجھے کہا ’’بھائی جان فوراً ان سے ملاقات کریں اگر وہ نبی ہیں تو یقیناً ملاقات میں سبقت کرنے پر تمھیں درجہ ملے گا اور اگر وہ بادشاہ ہیں تو بھی ان کے دربار میں تمھیں رسوا نہیں کیا جائے گا۔‘‘
جناب عدی کہتے ہیں کہ میں نے رخت سفر باندھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے بغیر کوئی ضمانت حاصل کئے مدینہ منورہ کی طرف چل پڑا البتہ مجھے یہ بات معلوم ہوچکی تھی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی خواہش ہے کہ میں کسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر اثر آجاؤں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے، میں نے سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم کون ہو؟ میں نے عرض کی، عدی بن حاتم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی کا اظہار فرمایا اور میرا ہاتھ پکڑا اور گھر کی طرف چل دیئے اور اس دوران میں نے ایک عجیب و غریب منظر دیکھا کہ ایک کمزور اور لاچار بڑھیا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ روک لیا ، اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا اس نے اپنی کوئی ضرورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی جسے آپ نے اسی وقت پورا کر دیا میں نے اپنے دل میں کہا خدا کی قسم یہ بادشاہ نہیں ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور آگے چل دیئے۔
یہاں تک کہ ہم گھر پہنچ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تکیہ مجھے دیا کہ اس پر بیٹھ جاؤں میں شرمایا اور عرض کیا حضور آپ ہی تشریف رکھیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ تم کو ہی بیٹھنا ہوگا لہٰذا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانتے ہوئے اس پر بیٹھ گیا اور خود نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھ گئے کیوں کہ گھر میں اس کے علاوہ کوئی اور چیز نہ تھی۔ میں نے اپنے دل میں کہا خدا کی قسم یہ کسی بادشاہ کی عادت نہیں ہوسکتی پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم نصرانیت اور لادینیت کے درمیان تذبذب کا شکار نہیں؟ میں نے عرض کیا بالکل آپ کا ارشاد درست ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اپنی قوم کے مال و دولت میں سے چوتھائی حصہ نہیں لیتے جو کہ خود تمھارے دین کی روشنی میں تمھارے لیے حلال نہیں ہے۔ میں نے کہا بالکل درست فرمایا آپ نے ، اور اب مجھے اس بات کا یقین حاصل ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مخاطب ہوئے اور ارشاد فرمایا : اے عدی شاید تمھیں دین اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کی موجودہ حالت زار اور غربت و مفلسی روک رہی ہے خدا کی قسم عنقریب ایک دن ایسا آئے گا کہ مسلمانوں میں مال اتنا وافر ہوجائے گا کہ کوئی شخص تمھیں صدقہ قبول کرنے والا نہیں ملے گا ۔ اے عدی شاید تمھیں اس دین کو قبول کرنے سے مسلمانوں کی قلت اور دشمنوں کی کثرت کا احساس روک رہا ہے۔ خدا کی قسم تم عنقریب سنو گے کہ پورے خطہ عرب میں اسلامی پرچم لہرائے گا اور ہر سُو امن کا ایسا ماحول ہوگا کہ ایک عورت تنہا اپنی سواری پر قادسیہ سے روانہ ہوگی اور بے خطر سفر کرتی ہوئی مدینہ منورہ پہنچے گی۔ دوران سفر اﷲ تعالیٰ کے سوا اس کے دل میں کسی کا ڈر نہ ہوگا۔
اے عدی! شاید تجھے اس دن کو قبول کرنے سے یہ احساس روک رہا ہو کہ آج حکومت و سلطنت غیر مسلموں کے قبضہ میں ہے خدا کی قسم تم عنقریب یہ خبر سنو گے کہ سرزمین بابل کے سفید محلات کو مسلمانوں نے فتح کر لیا ہے اور کسریٰ بن ہرمز کے خزانوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوجائے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں مسلمان کسریٰ بن ہرمز کے خزانوں پر قابض ہوجائیں گے جناب عدی فرماتے ہیں کہ یہ باتیں سن کر میں بہت زیادہ متاثر ہوا اور کلمۂ شہادت پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔
حضرت عدی ؓ نے طویل عمر پائی آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ دو نشانیاں تو پوری ہوچکی ہیں تیسری ابھی باقی ہے خدا کی قسم وہ بھی پوری ہو کر رہے گی ۔ میں نے بچشم خود دیکھا کہ ایک عورت تنہا اپنی سواری پر قادسیہ سے چلی اور بلاخوف و خطر سفر کرتی ہوئی مدینہ طیبہ تک پہنچ گئی اور میں اس لشکر میں بذات خود موجود تھا جس نے کسریٰ کے خزانوں کو اپنے قبضے میں لیا اور حلفیہ طور پر کہتا ہوں کہ تیسری نشانی بھی یقیناً پوری ہو کر رہے گی ۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا کر دکھایا اور تیسری نشانی حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اﷲ علیہ کے دور خلافت میں پوری ہوئی مسلمانوں کے پاس مال و دولت کی اس قدر فراوانی ہوگئی تھی کہ زکوۃ لینے والا کوئی محتاج و مفلس نہیں ملتا تھا ۔ بلاشبہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا اور جناب عدی بن حاتم رضی اﷲ عنہ کی قسم بھی پوری ہوگئی۔

No comments: