Thursday, April 23, 2020

الله تعالٰی کی مدد

سعودى عرب کے شہر بریدہ میں پیش آنے والا ایک سچا واقعہ ایک سعودی تاجر کا بیان کردہ ہے کہ میں اور میرا دوست سعود شہر بریدہ میں تجارت کرتے تھے ایک دن میں جمعہ کی نماز کے لیے بریدہ کی مسجد الکبیر میں گیا نماز جمعہ کے بعد جنازہ کا اعلان ہوا نماز جنازہ ادا کی گئی لوگوں نے ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کر دیا کہ یہ جنازہ کس کا ہے؟؟؟ پتہ چلا کہ یہ جنازہ میرے ہی دوست سعود کا ہے جو گزشتہ رات دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا تھا مجھے سُن کر انتہائی صدمہ پہنچا یہ 1415ھ یعنی کئی برس پہلے کی بات ہے اس وقت ابھی موبائل فون عام نہیں ہوا تھا - چند مہینے گزرنے کے بعد وہاں کے ایک دکاندار نے مجھ سے بات کی کہ مرحوم سعود کے ذمے میرے 3 لاکھ ریال ہیں تو آپ میرے ساتھ چلیں ہم جا کر اس کے بیٹوں سے بات کریں اور یہ بات پہلے سے میرے علم میں تھی کہ سعود کے ذمہ یہ قرض ھے چنانچہ ہم مرحوم کے بیٹوں سے جا کر ملے بات چیت ہوئی تو انہوں نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے رقم لوٹانے سے صاف انکار کردیا  اور کہا کہ ہمارے باپ نے تو صرف 6 لاکھ ریال چھوڑا ہے اگر 3 لاکھ ہم آپ کو دیتے ہیں تو پھر ہمارے پاس کیا بچے گا - اس دور میں بہت سا لین دین باہم اعتماد پر ہوتا تھا چنانچہ ہم واپس آ گئے، یوں  وقت گزرتا گیا لیکن ہر وقت مجھے سعود کی یاد ستاتی رہی یہی سوچتا رہا کہ نہ جانے قرض نہ چکانے کی وجہ سے قبر میں اس کے ساتھ کیا بیت رہی ہو گی- ایک دن میں نے اپنے پیارے دوست کا قرض اتارنے کا عزم کر لیا اس ارادے کے بعد پھر مجھے دو دن تک نیند نہیں آئی جب بھی میں سونے کے لئے آنکھیں بند کرتا تو سعود کا مسکراتا چہرہ میرے سامنے آ جاتا گویا وہ میری مدد کا منتظر ہو تیسرے دن میں نے اپنے عزم کو عملی جامہ پہناتے ہوے اپنی دکان سامان سمیت فروخت کر دی اور دیگر جمع پونجی اکٹھی کی تو میرے پاس 4 لاکھ پچاس ہزار ریال جمع ہو گئے تو فورا 3 لاکھ ریال سے دوست کا قرض ادا کیا جس سے مجھے دلی سکون ملا اس ادائیگی کے 2 ہفتے بعد وہی شخص جس کو میں نے 3 لاکھ ادا کئے تھے میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے پتا چلا ہے کہ آپ نے اپنا سب کچھ بیچ کر یہ پیمنٹ کی ہے لہذا میں 1 لاکھ ریال سے دستبردار ہوتا ہوں، یہ کہ کر اس نے 1 لاکھ ریال مجھے واپس کر دیا اور مارکیٹ میں دوسرے تاجروں کے ساتھ بھی اس واقعہ کا تذکرہ کیا کہ مخلص دوست نے کمال کی مثال قائم کر دی ہے چند دن گزرے کہ ایک تاجر کا فون آیا اسنے پیشکش کی کہ میرے پاس دو دکانوں پر مشتمل ایک سٹور ہے جو میں آپ کو بلا معاوضہ دینا چاہتا ہوں میں نے اس کی پیشکش کو قبول کیا مزدور لگا کر دکانوں کی صفائی کی اسی دوران سامان سے لدا ہوا ایک بڑا ٹرک دکانوں کے سامنے آ کر رکا جس میں سے ایک نوجوان نیچے اترا سلام کے بعد کہنے لگا کہ میں فلاں تاجر کا بیٹا ہوں یہ سامان میرے ابا جان نے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ سامان بیچ کر اس کی نصف قیمت آپ ہمیں لوٹا دینا اور باقی آدھا مال ہماری طرف سے گفٹ ہے اور آئندہ جتنے مال کی ضرورت ہو ہم سے ادھار لے کر فروخت کر کے پیمنٹ کر دیا کریں لوگ جنہیں میں جانتا نہیں تھا چاروں طرف سے میرے ساتھ تعاون کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور تھوڑے ہی عرصے میں میرا بزنس پہلے سے دگنا ہو گیا المختصر 1436ھ کے رمضان المبارک میں، میں نے 3 ملین ریال اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی ہے يہ كوئی افسانہ نہیں بلکہ حقیقی واقعہ ہے 
سید کائنات رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان گرامی کس قدر سچا ھے کہ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ھے الله تعالٰی بھی اس کی مدد کرتا رہتا ھے ـ آپ کے ساتھ یا آپ کے مشاہدے میں کبھی ایسا واقعہ ہوا؟؟؟

مقصدِ زندگی

ایک عالم اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لئے کھیتوں میں سے گزر رہے تھے۔
چلتے چلتے ایک پگڈنڈی پر ایک بوسیدہ جوتا دکھائی دیا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ کسی بڑے میاں کا ہے۔ قریب کے  کسی کھیت کھلیان میں مزدوری سے فارغ ہو کر اسے پہن کر گھر کی راہ لیں گے۔ شاگرد نے جنابِ شیخ سے کہا؛ حضور! کیسا رہے گا کہ تھوڑی دل لگی کا سامان کرتے ہیــــں۔ جوتا ادھر ادھر کر کے خود بھی چھپ جاتے ہیــــں۔ وہ بزرگوار آن کر جوتا مفقود پائیں گے تو ان کا ردِ عمل دلچسپی کا باعث ہو گا۔
 شیخ کامل نے کہا؛ بیٹا اپنے دلوں کی خوشیاں دوسروں کی پریشانیوں سے وابستہ کرنا کسی طور بھی پسندیدہ عمل نہیـں۔ بیٹا تم پر اپنے رب کے احسانات ہیــــں۔ ایسی قبیح حرکت سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اپنے رب کی ایک نعمت سے تم اس وقت ایک اور طریقے سے خوشیاں اور سعادتیں سمیٹ سکتے ہو۔ اپنے لئے بھی اور اس بیچارے مزدور کے لئے بھی۔ ایسا کرو کہ جیب سے کچھ نقد سکے نکالو اور دونوں جوتوں میں  رکھ دو۔ پھر ہم چھپ کے دیکھیں گے جو ہو گا۔ بلند بخت شاگرد نے تعمیل کی اور استاد و شاگرد دونوں جھاڑیوں کے پیچھے دبک گئے۔

 کام ختم ہوا، بڑے میاں نے آن کر جوتے میں پاؤں رکھا ۔۔۔ تو سکے جو پاؤں سے ٹکرائے تو ایک ہڑبڑاہٹ کے ساتھ جوتا اتارا تو وہ سکے اس میں سے باہر آ گئے۔ ایک عجیب سی سرشاری اور جلدی میں دوسرے جوتے کو پلٹا تو اس میں سے سکے کھنکتے باہر آ گئے۔ اب بڑے میاں آنکھوں کو ملتے ہیــــں، دائیں بائیں نظریں گھماتے ہیــــں۔ یقین ہو جاتا ہے کہ خواب نہیـں، تو آنکھیں  تشکر کے آنسوؤں سے بھر جاتی ہیــــں۔ بڑے میاں سجدے میں گر جاتے ہیــــں۔ استاد و شاگرد دونوں سنتے ہیــــں کہ وہ اپنے رب سے کچھ یوں مناجات کر رہے ہیــــــــں۔
میرے مولا! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں، تو میرا کتنا کریم رب ہے۔ تجھے پتہ تھا کہ میری بیوی بیمار ہے، بچے بھی بھوکے ہیــــں، مزدوری بھی مندی جا رہی ہے ۔۔۔ تو نے کیسے میری مدد فرمائی۔ ان پیسوں سے بیمار بیوی کا علاج بھی ہو جائے گا، کچھ دنوں کا راشن بھی آ جائے گا۔ ادھر وہ اسی گریہ و زاری کے ساتھ اپنے رب سے محو مناجات  تھے اور دوسری طرف استاد و شاگرد دونوں کے ملے جلے جذبات اور ان کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ کچھ دیر کے بعد شاگرد نے دست بوسی کرتے ہوئے عرض کیا؛ استاد محترم! آپ کا آج کا سبق کبھی نہیـں بھول پاؤں گا۔ آپ نے مجھے مقصدِ زندگی اور اصل خوشیاں سمیٹنے کا ڈھنگ بتا دیا ہے۔ شیخ جی نے موقعِ مناسب جانتے ہوئے بات بڑھائی، بیٹا! صرف پیسے دینا ہی عطا نہیں بلکہ باوجود قدرت کے کسی کو معاف کرنا ﻋﻄﺎﺀ ہے۔ مسلمان بھائی بہن کے لئے غائبانہ دعا  ﻋﻄﺎﺀ ہے۔  مسلمان بھائی بہن کی عدم موجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت ﻋﻄﺎﺀ ہے۔
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ اوروں کو بھی شریک کریں, یہ صدقہ جاریہ ہوگا, اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو .. جزاک اللہ خیرا

Wednesday, April 22, 2020

اولیاء اللہ کونِ ہیں؟

یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور ﴿برائیوں سے﴾ پرہیز رکھتے ہیں۔
سورة یونس آیت 62۔63
اولیاء ولی کی جمع ہے جس کے معنی لغت میں قریب کے ہیں اس اعتبار سے اولیاءاللہ کے معنی ہوں گے وہ سچے اور مخلص مومن جنہوںنے اللہ کی اطاعت کی اور معاصی سے اجتناب کر کے اللہ کا قرب حاصل کرلیا اسی لیے اگلی آیت میں خود اللہ تعالی نے بھی ان کی تعریف ان الفاظ سے بیان فرمائی جو ایمان لائے اورجنہوں نے تقوی اختیار کیا۔ ایمان و تقوی ہی اللہ کے قرب کی بنیاد اور اہم ترین
ذریعہ ہے اس لحاظ سے ہر متقی مومن اللہ کا ولی ہے۔ لوگ ولایت کے لیے اظہارکرامت کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اور پھر وہ اپنے بنائے ہوئے ولیوں کے لیے جھوٹی سچی کرامتیں مشہور کرتے ہیں یہ خیال بالکل غلط ہے کہ کرامت کا ولایت سے چولی دامن کا ساتھ ہے نہ اس کے لیے شرط
یہ ایک الگ چیز ہے کہ اگر کسی سے کرامت ظاہر ہو جائے تواللہ کی مشیت ہے اس میں اس بزرگ کی مشیت شامل نہیں ہے لیکن کسی متقی مومن اور متبع سنت سے کرامت کا ظہور ہو یا نہ ہو اس کی ولایت میں کوئی شک نہیں۔
تمام مومنین ومتقین بھی اولیاء اللہ ہیں اولیاء اللہ کوئی الگ مخلوق نہیں ہاں البتہ اولیاءاللہ کے درجات میں فرق ہے۔
حدیث میں ہے۔ جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی رکھی اس نے میرے ساتھ اعلان جنگ کیا۔﴿صحیح بخاری کتاب لرقاق باب التواضع﴾
گویا اللہ کے کسی ایک ولی سے دشمنی سارے اولیاءاللہ سے بلکہ اللہ تعالی سے بھی دشمنی ہے۔
اس سے واضح ہوا کہ اولیاءاللہ کی محبت اور ان کی تعظیم نہایت ضروری اور ان سے بغض و عناد اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالی اسے کے خلاف اعلان جنگ فرماتا ہے۔
لیکن محبت اورتعظیم کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی قبروں پر گنبد اور قبے بنائے جائیں ان کی قبروں پر سالانہ عرس کے نام پر میلوں ٹھیلوں کا اہتمام کیا جائے ان کے نام کی نزرونیاز اور قبروں کو غسل دیا جائے اوران پر چادریں چڑھائی جائیں اور انہیں حاجت روا مشکل کشا نافع و ضار سمجھا جائے ان کی قبروں پر دست بستہ قیام اور ان کی چوکھٹوں پر سجدہ کیا جائے وغیرہ جیسا کی بدقسمتی سے اولیاءاللہ کی محبت کے نام پر یہ کاروبار لات ومنات فروغ پزیر ہے حالانکہ یہ محبت نہیں ہے ان کی عبادت ہے جو شرک اور ظلم عظیم ہے اللہ تعالی اس فتنہ عبادت قبور سے محفوظ رکھے۔ آمین

اللہ تعالیٰ کے دوست............

اللہ عزو جل جسے اپنا محبوب بنالے اسے دین اسلام کا خادم بنا دیتا ہے۔ وہ لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اللہ کے لیے قربانی کرتے ہیں اللہ کے لیے جیتے ہیں اور اللہ کے لیے ہی مرتے ہیں ایسے لوگ جب یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے تو پھر اس پر قائم بھی رہتے ہیں ان پر اللہ کی طرف سے فرشتے اترتے ہیں ان کے لیے نہ دنیا میں کوئی ڈر ہے اور نہ آخرت میں وہ غمگین ہوگے۔ اور ان کے لیے اللہ کے ہاں ایک بہترین مقام جنت ہے جس کا ان کے لیے وعدہ ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللہ عز وجل ان کا دوست ہے۔اور ان کے لیے آخرت میں جو کچھ مانگیں اس کا ان کے رب کی طرف سے وعدہ ہے ۔ چونکہ وہ اللہ کے دوست اور اللہ ان کا دوست ہے لہذا ان کے نیک کاموں کا صلہ انہیں ظاہری زندگی ختم ہو جانے کے بعد ملتا ہے۔کیونکہ اللہ نے ان کے ساتھ اپنی دوستی کا وعدہ دونوں جہانوں میں فرمایا ہے۔انہیں انبیاء کرام علیھم السلام، صدیقین، شہیداء اور صالحین کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا اور یہ اللہ کا فضل ہی تو ہے کہ نیک لوگ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب اور کامران ہیں۔ جب ایسے لوگوں کے لیے اللہ کے انعامات اس قدر ہیں تو وہ بخشش و مغفرت کے بھی ضرور حق دار ہیں
اللہ عز وجل قرآن مجید میں ان نیک لوگوں کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرماتا ہے اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔
’’اور جسے اللہ راہ دکھانا چاہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہے اس کا سینہ تنگ خوب رکا ہوا کر دیتا ہے گویا کسی کی زبردستی سے آسمان پر چڑھ رہا ہے ، اللہ یونہی عذاب ڈالتا ہے ایمان نہ لانے والوں کو۔ اور یہ تمہارے رب کی سیدھی راہ ہے ہم نے آیتیں مفصل بیان کر دیں نصیحت ماننے والوں کے لیے۔ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے اپنے رب کے یہاں اور وہ ان کا مولیٰ ہے یہ ان کے کاموں کا پھل ہے۔‘‘
سورۃ الانعام آیات 125، 126، 127

’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اْسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے ، اور اللہ کافی ہے جاننے والا۔‘‘
سورۃ النساء آیات 69، 70

’’ایمان والے نیکو کاروں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے‘‘
سورۃ المائدہ آیت 9

’’تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کو اپنا دوست بنائے توبیشک اللہ ہی کا گروہ غالب ہے۔‘‘
سورۃ المائدہ آیات 55، 56

’’سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم ۔وہ جو ایمان لائے اور پرہیز گاری کرتے ہیں ،انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں ، اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے ،اور تم ان کی باتوں کا غم نہ کرو بیشک عزت ساری اللہ کے لیے ہے وہی سنتا جانتا ہے ۔‘‘
سورۃ یونس آیات 62، 63،64،65

’’بیشک وہ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور خوش ہو اس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا ۔ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اور تمہارے لیے ہے اس میں جو تمہارا جی چاہے اور تمہارے لیے اس میں جومانگو۔مہمانی بخشنے والے مہربان کی طرف سے۔اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں۔ اور نیکی اور بدی برابر نہ ہو جائیں گی، اے سننے والے برائی کو بھلائی سے ٹال جبھی وہ کہ تجھ میں اور اس میں دشمنی تھی ایسا ہو جائے گا جیسا کہ گہرا دوست ۔اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صابروں کو، اور اسے نہیں پاتا مگر بڑے نصیب والا۔‘‘
سورۃ حم السجدہ آیات 30، 31، 32، 33، 34، 35

.... حلقہ ارادت میں وسعت کی حکمت​

اللہ تعالیٰ نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کثرتِ امت عطا کی۔ حدیث پاک ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جنت میں جنتیوں کی 120 صفیں ہو نگیں۔ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی اُمتیں ہیں۔ سب نبیوں کی اُمتوں میں کچھ نہ کچھ اُمتی جنت میں جائیں گے ہر ایک کو حصہ ملے گا۔ فرمایا کل انبیاء کی امت کے جنتی لوگوں کی ٹوٹل صفیں 120 ہونگیں اُن 120 صفوں میں 80 صفیں میری اُمت کی ہونگیں اور باقی ایک لاکھ چوبیس ہزار باقی انبیاء کی اُمتوں میں 40 صفیں تقسیم ہونگیں۔ جس طرح کثرتِ امت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا ہوئی اس طرح حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کو کثرتِ ارادت کی نعمت ملی یعنی سلسلہ قادریہ میں کثیر تعداد میں مریدین عطا کئے گئے۔ اِس کائنات دُنیا میں جتنے مرید حضور غوثِ پاک کے ہوئے اوّل سے آخر تک کسی ولی کے نہ ہوئے اور نہ کبھی ہونگے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھا وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ہیں اور جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے ہو گزرے، ایمان لانے کے خواہشمند تھے مگر کلمہ نہ پڑھ سکے وہ بھی امت میں سے ہیں اور جملہ انبیاء بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت میں سے ہیں۔ اِسی طرح جنہوں نے حضور غوثِ پاک رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ان کے سلسلہ میں بیعت کی وہ بھی اُن کے مریدوں میں اور جو اس سلسلے میں بیعت نہ کر سکے مگر گردن جھکا لی وہ بھی مرید ہو گئے۔ جو زبان سے کہہ دے یا غوث میں آپ کا مرید ہوں وہ غوث پاک کا مرید ہو گیا اور پھر وہ لاج رکھ لیتے ہیں۔ سلسلہ قادریہ سے تعلق رکھنے والے تو حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کے مرید ہیں ہی مگر جملہ سلاسل سلسلہ چشتیہ، نقشبندیہ، سہروردیہ وغیرہ کے مربی و رہنما اور مریدین بھی حضور غوث الاعظم کے مرید اور فیض یافتہ ہیں۔

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا قَدَمِیْ هٰذِه عَلٰی رَقَبَةِ کُلِّ وَلِيَّ اﷲ ’’میرا قدم ہر ولی کی گردن پر ہے‘‘۔ ۔ ۔ یہ نہیں فرمایا کہ مرید کی گردن پر۔ ۔ ۔ یا میرے سلسلے کے ہر ولی کے کندھوں پر ہے۔ ۔ ۔ یہ نہیں کہا۔ ۔ ۔ بلکہ فرمایا ہر ولی کی گردن پر ہے۔ گویا جو حضور غوثِ پاک کو نہ مانے وہ ولی ہو ہی نہیں سکتا اور جو ولی حضور غوثِ پاک کے زیرِ قدم ہونے کا انکار کر دے اگلے ہی لمحے اس سے ولایت سلب ہو جائے گی۔