Thursday, August 17, 2023

قوم لوط

قوم لوط جنہوں نے ایسی برائی کو ایجاد کیا۔ جو ان سے پہلے دنیا میں کسی قوم نے نہ کی تھی۔ ایسی بدکاری جس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ اس قوم نے ایسا کیا کام کیا تھا اور ان کا کیا انجام ھوا۔ حضرت لوط علیہ السلام  اللہ کے ایک برگزیدہ نبی تھے آپ کے والد کا نام حاران تھا جو تابش کے بیٹے تھے آپ کی پیدائش عراق کے قدیم شہر "عر" میں ہوئی تھی اس شہر میں ابراہیم علیہ السلام کا مسکن تھا۔ دراصل لوط علیہ السلام کے والد حاران حضرت ابراہیم کے سگے بھائی تھے یعنی حضرت لوط علیہ السلام کے والد حضرت ابراہیم کے بھتیجے تھے چونکہ حضرت لوط علیہ السلام کے والد ان کے بچپن میں ہی انتقال کر چکے تھے لہذا حضرت لوط  کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیٹا بنا کر پالا تھا آپ حضرت ابراہیم پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں شامل ہیں

 آپ حضرت ابراہیم کے زمانے میں اہل سدوم کی رہنمائی کے لئے نبوت کے منصب پر فائز ہوئے ۔ حضرت لوط کے بہت سارے معجزات ہیں آپ جس وقت بارش کے لیے دعا کرتے تھے تو آسمان بادلوں سے بھر جاتا اور خوب بارش ہوتی تھی۔ حضرت لوط علیہ السلام جس پتھر پر سر رکھ کر سوتے تھے اس پتھر پر آپ کے سر مبارک کا نشان بن جاتا تھا سدوم وہ علاقہ تھا جہاں لوط علیہ السلام مبعوث فرمائے گئے

 سدوم کے آس پاس پانچ نہایت ہی خوبصورت شہر آباد تھے جن میں سے ہر ایک کی آبادی ایک لاکھ سے زیادہ تھی یہ علاقے نہایت سرسبزو شاداب اور قدرت کی فیاضی کا حسین شاہکار تھا یہاں باغات کی کثرت تھی لہلہاتی کھتیاں یہاں کی ضروریات سے زیادہ تھیں اردن، شام اور اسرائیل کے درمیان بسا ہوا۔ یہ علاقہ نہایت ہی زرخیز تھا وہاں طرح طرح کے اناج پھل میوے بکثرت پیدا ہوتے تھے۔

 یہی وجہ تھی کہ آس پاس کی بستیوں کے لوگ، اپنی معاشی اور غذائی ضرورت کے لئے ان بستیوں کی طرف آتے تھے مگر یہ بات اہل سدوم کے لوگوں کو بالکل بھی پسند نہ تھی ان کے خیال میں ان کی بستیوں میں پیدا ہونے والے پھلوں اناج اور سبزیوں پر صرف ان کا ہی حق تھا وہ نہیں چاہتے تھے کہ دوسری بستیوں کے لوگ ان کے علاقے میں آئیں۔ ایک دن سدوم کے لوگ اس بات پر غور و فکر کر رہے تھے 

کہ باہر سے آنے والے لوگوں کو یہاں آنے سے آخر کیسے روکا جائے۔ کہ ایک بزرگ کی شکل میں ابلیس ان کی محفل میں آیا اور کہا اگر تم ان سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہو تو میرے کہنے پر عمل کرو۔ اس اجنبی بزرگ کی بات لوگوں نے بہت توجہ سنی۔ اور ابلیس نے کہا باقی بات میں کل بتاؤں گا۔  دوسرے دن کی  ابلیس ایک خوبصورت جوان لڑکے کے بھیس میں آیا 

اور انہیں اپنی عورتوں کی بجائے۔ مردوں کے ساتھ فیل بد کرنا سکھایا۔ ابلیس نے کہا کہ اگر تم ان بستیوں کے لوگوں سے نجات چاہتے ہو۔ جو تمہاری بستی میں آ جاتے ہیں تو ایسا کرو کہ جب بھی کوئی شخص تمہارے علاقے میں آئے تو تم لوگ زبردستی اس کے ساتھ اپنی خواہش پوری کرو۔ اس طرح یہ لوگ اس بستی میں آنا چھوڑ دیں گے۔ اپنی نفسانی خواہشات کے لیے مردوں سے بد فعلی اس قوم کا دستور بن گیا تھا۔

 یہاں بے حیائی عام ہوگئی تھی۔ حکمران، سردار، رعوسہ، ہر طبقے میں گھر گھر یہ عمل پھیل گیا تھا۔ بھری محفل میں یہ لوگ اس فحاشی کے اس کام کو کر کے خوش ہوتے تھے کوئی بھی محفل اس کام کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی تھی۔ خاص کر مسافروں میں سے کوئی خوبصورت لڑکا ہوتا تو یہ لوگ اسے اپنا شکار بنا لیتے طلموت میں لکھا ہے کہ اہل سدوم اپنی روز مرہ کی زندگی میں سخت ظالم دھوکہ باز اور بد معاملہ تھے

 کوئی مسافر ان کے علاقے سے بخیریت نہیں گزر سکتا تھا کوئی غریب ان کی بستیوں سے روٹی کا ایک ٹکڑا نہ پا سکتا تھا۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ باہر کا آدمی ان کے علاقے میں پہنچ کر فاقوں سے مر جاتا تھا اور یہ لوگ اس کے کپڑے اتار کر اس کی لاش کو برہنہ دفن کر دیتے۔ اپنی وادی کو انہوں نے ایک باغ بنا رکھا تھا۔ جس کا سلسلہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا اس باغ میں وہ انتہائی بے حیائی کے ساتھ اعلانیہ بد کاریاں کرتے تھے۔

 حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں توحید کی دعوت دی اور بدکاری کے اس گھناونے عمل سے توبہ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت لوط نے کہا تم  یہ کیوں کرتے ہو کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر لذت حاصل کرنے کے لیے مرد کی طرف مائل ہوتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم احمق لوگ ہو۔ تو پھر حضرت لوط اہل سدوم کو دن رات وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے۔ لیکن اس قوم پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔

 بلکہ وہ بہت فخریہ انداز میں یہ کام کرتے تھے انہیں حضرت لوط کا سمجھانا بھی برا لگتا تھا لہذا انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر تم ہمیں اسی طرح بھلا کہتے رہے اور ہمارے کاموں میں مداخلت کرتے رہے تو ہم تمہیں اپنے شہر سے نکال دیں گے۔ حضرت لوط نے نصیحت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔ لہذا ایک دن اہل سدوم نے خود ہی عذاب الہی کا مطالبہ کر دیا۔

 اللہ تعالی نے اب تک ان کے اس بدترین عمل فحاشی اور بدکاری کے باوجود ڈھیل دے رکھی تھی۔ لیکن جب انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام سے ایک دن کہا کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب لے آؤ۔ لہذا ان پر عذاب الہی کا فیصلہ ہوگیا۔ اللہ نے اپنے خاص فرشتوں کو دنیا کی طرف روانہ کر دیا۔ یہ فرشتے دراصل حضرت میکائیل، جبرائیل اور اسرافیل علیہ السلام تھے پھر یہ فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر تشریف لے آئے۔

 حضرت لوط نے جب ان خوبصورت نوعمر لڑکوں کو دیکھا تو سخت گھبراہٹ اور پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔ انہیں یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ اگر ان کی قوم کے لوگوں نے انہیں دیکھ لیا۔ تو نہ جانے وہ انکے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ حضرت لوط کی بیوی کا نام وائلہ تھا اس نے آپ پر ایمان نہیں لایا تھا اور وہ دراصل منافقہ تھی۔ وہ کافروں کے ساتھ تھی لہذا اس نے جاکر اہل سدوم کو یہ خبر دے دی۔ 

کہ لوط کے گھر دو نوجوان لڑکے مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں یہ سن کر بستی والے دوڑتے ہوئے۔ حضرت لوط کے گھر پہنچے حضرت لوط نے کہا کہ یہ جو میری قوم کی لڑکیاں ہیں یہ تمہارے لیے جائز اور پاک ہیں اللہ سے ڈرو مجھے میرے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں سے کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں، حضرت لوط علیہ السلام کی بات سن کر وہ لوگ بولے

 تم بخوبی واقف ہو کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کوئی حاجت نہیں اور جو ہماری اصل چاہت ہے اس سے تم بخوبی واقف ہو۔ قوم لوط کے اس شرم سار جواب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ فیل بد میں کس حد تک مبتلا ہو چکے تھے جب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم ان کے گھر کی طرف دوڑتی ہوئی آئی تو حضرت لوط نے گھر کے دروازے بند کر دیے اور ان نوجوانوں کو ایک کمرے میں چھپا دیا۔ 

ان بدکار لوگوں نے آپ کے گھر کا گھیراؤ کیا ہوا تھا اور ان میں سے کچھ گھر کے دیوار پر بھی چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے حضرت لوط علیہ السلام اپنے مہمانوں کی عزت کے خیال سے بہت زیادہ گھبرائے ہوئے تھے فرشتے یہ سب منظر دیکھ رہے تھے جب انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی بے بسی اور پریشانی کا یہ عالم دیکھا۔ تو حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے یوں فرمایا۔

 اے لوط ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں یہ لوگ ہرگز تم تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ ابھی کچھ رات باقی ہے تو آپ اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ اہل سدوم حضرت لوط علیہ السلام کے گھر کا دروازہ توڑنے پر بضد تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے گھر سے باہر نکل کر اپنے پر کا ایک کونا انہیں مارا۔ جس سے ان کی آنکھوں کے ڈھیلے باہر نکل آئے

 اور بصارت ظاہر ہوگئی یہ خاص عذاب ان لوگوں کو پہنچا۔ جو حضرت لوط کے پاس بدنیتی سے آئے تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام حقیقت حال جان کر مطمئن ہو گئے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ رات کو ہی نکل کھڑے ہوئے۔ لیکن پھر بھی ان کی بیوی ان کے ساتھ تھی لیکن کچھ دور جا کر وہ واپس اپنے قوم کی طرف پلٹ گئی اور قوم کے ساتھ جہنم واصل ہو گئی۔ 

صبح کا آغاز ہوا تو اللہ کے حکم سے حضرت جبرئیل نے بستی کو اوپر سے اکھاڑ دیا اور پھر اپنے بازو پر رکھ کر آسمان پر چڑھ گئے یہاں تک کہ آسمان والوں نے بستی کے کتے کے بھونکنے اور مرغوں کے بولنے کی آوازیں سنیں۔ پھر اس بستی کو زمین پر دے مارا جس کے بعد ان پر پتھروں کی بارش ہوئی۔ ہر پتھر پر مرنے والے کا نام لکھا ہوا تھا۔ جب یہ پتھر ان کو لگتے تو ان کے سر پاش پاش ہوجاتے۔

 صبح سویرے شروع ہونے والا یہ عذاب اشراک تک پوری بستی کو نیست و نابود کر چکا تھا قوم لوط کی ان خوبصورت بستیوں کو اللہ نے ایک انتہائی بد بو دار اور سیاہ جیل میں تبدیل کردیا۔ جس کے پانی سے رہتی دنیا تک کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ سمندر کے اس حصے میں کوئی جاندار مچھلی، مینڈک وغیرہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس لیے اسے ڈیڈ سی یعنی بہرے مردار کہا جاتا ہے

 جو اسرائیل اور اردن کے درمیان واقع ہے۔ ماہرین آثار نے دس سالوں کی تحقیق و جستجو کے بعد اس تباہ شدہ شہر کو دریافت کیا تھا۔ تحقیقات سے پتہ چلا تھا کہ اس شہر میں زندگی بالکل ختم ہو چکی ہے۔ شہر کے راستے اور کھنڈرات کو دیکھ کر ارکلوجسٹ نے یہ اندازہ لگایا کہ جب یہ شہر تباہ ہوا تو اس وقت لوگ روزمرہ کے معاملات اور کاموں میں مشغول تھے اور یہاں زندگی اچانک ختم ہو گئی تھی
 اہل سدوم جنہیں پتھر بنا دیا گیا تھا۔ ان کے بت ابھی تک بحیرہ مردار کے پاس موجود ہیں جو لوگوں کے لیے ایک عبرت ہے آج یورپی ممالک میں انسانی آزادی کے نام پر اس بدکاری کی اجازت دی جاتی ہے اور اس فحش عمل کو بعاعث فخر سمجھا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم جنس پرستی بالکل فطرت کے خلاف ہے جس سے انسانی معاشرہ تباہ وبرباد ہو جاتا ہے۔
 روایتوں کے مطابق ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے شیطان سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بدترین عمل کیا ہے ابلیس بولا جب مرد مرد سے بدفعلی کرے اور عورت عورت سے خواہش پوری کرے۔ حضرت ابن عباس سے روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص پر اللہ پاک کی لعنت ہو جو قوم لوط والا عمل کرے ۔
تحریر میں کوئی غلطی ہو تو تصحیح فرما دیا کریں شکریہ ۔ خدا اور میں

No comments: