عشرہ ذی الحجہ کے فضائل: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے عشرہ ذی الحجہ سے بہتر کوئی زمانہ نہیں۔ ان میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اور ایک رات کی عبادت سب قدر کی عبادت کے برابر ہے۔ (ترمذی، ابن ِ ماجہ)
قرآن مجید میں سورہ "والفجر"میں اللہ تعالیٰ نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے اور وہ دس راتیں جمہور کے قول کے مطابق یہی عشرہ ذی الحجہ کی راتیں ہیں۔ خصوصاً نویں ذی الحجہ کا روزہ رکھنا ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے اور عید کی رات بیدار رہ کر عبادت میںمشغول رہنا بڑی فضیلت اور ثواب کا موجب ہے۔
قرآن مجید میں سورہ "والفجر"میں اللہ تعالیٰ نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے اور وہ دس راتیں جمہور کے قول کے مطابق یہی عشرہ ذی الحجہ کی راتیں ہیں۔ خصوصاً نویں ذی الحجہ کا روزہ رکھنا ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے اور عید کی رات بیدار رہ کر عبادت میںمشغول رہنا بڑی فضیلت اور ثواب کا موجب ہے۔
نویں ذی الحجہ کی صبح سے تیرہویں ذی الحجہ کی عصر تک ہر نماز کے بعد بآواز بلند ایک مرتبہ مذکورہ تکبیر کہنا واجب ہے۔ فتویٰ اس پر ہے کہ باجماعت اور تنہا نماز پڑھنے والے اس میں برابر ہیں۔ اسی طرح مرد و عورت دونوں پر واجب ہے۔ البتہ عورت بآواز بلند تکبیر نہ کہے، آہستہ کہے۔ (شامی)
عید الاضحی کے دن درج ذیل امور مسنون ہیں: صبح سویرے اٹھنا، غسل و مسواک کرنا، پاک صاف عمدہ کپڑے جو اپنے پاس ہوں پہننا، خوشبو لگانا، نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا، عید گاہ کو جاتے ہوئے راستہ میں بآواز بلند تکبیر کہنا۔
نماز عید: نماز عید دو رکعت ہیں، نماز عید اور دیگر نمازوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ اس میں ہر رکعت کے اندر تین تین تکبیریں زائد ہیں۔ پہلی رکعت میں سُب±حَانَکَ اللّٰھُمَّ پڑھنے کے بعد قرا¿ت سے پہلے اور دوسری رکعت میں قرا¿ت کے بعد رکوع سے پہلے۔ ان زائد تکبیروں میں کانوں تک ہاتھ اٹھانا چاہیے، پہلی رکعت میں دو تکبیروں کے بعد ہاتھ چھوڑدیں، تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لیں۔ دوسری رکعت میں تینوں تکبیروں کے بعد ہاتھ چھوڑدئےے جائیں، چوتھی تکبیر کے ساتھ رکوع میں چلے جائیں۔ نماز عید کے بعد خطبہ سننا واجب ہے۔
فضائل قربانی: قربانی کرنا ہر عاقل، بالغ مرد و عورت مسلمان مقیم واجب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد ہر سال قربانی فرمائی کسی سال ترک نہیں فرمائی، مواظبت واجب ہونے کی دلیل ہے۔ مواظبت کا مطلب لگاتار کرنا اور کسی سال نہ چھوڑنا ہے اور اس سے وجوب ثابت ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کرنے والوں پر وعید ارشاد فرمائی۔ حدیث پاک میں بہت سی وعیدیں ملتی ہیں مثلاً آپ کا یہ ارشاد کہ جو قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے، علاوہ ازیں قرآن پاک میں بعض آیات، قربانی کے سلالہ میں قطعی الدلالة تو نہیں البتہ قطعی الثبوت ہیںان سے وجوب ثابت ہے جو لوگ حدیث کو حجت نہیںمانتے وہ قربانی کا انکار کرتے ہیں ان سے جو لوگ متاثر ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں پیسے دے دئےے جائیں یا یتیم خانہ میں رقم دے دی جائے تو یہ بالکل غلط ہے۔ عمل کی ایک تو صورت ہوتی ہے دوسری حقیقت ہے۔ قربانی کی صورت یہی ضروری ہے۔ اس کی بڑی مصلحتیں ہیں اور اس کی حقیقت اخلاص ہے۔ آیت قرآنی سے یہی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ قربانی کی بڑی فضیلتیں ہیں۔
For Detailed Reading Click Here
--
Fi Aman Allah
with best wishes and regards
Khurram Shahzad
+92 - 333 - 5127596
Visit:
http://123iqra.com
http://123iqraa.blogspot.com
Read archives at:
http://yoursks.googlegroups.com
"صرف وہی چیز انسان کی قسمت میں ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔ سورہ النجم آئت 39"
No comments:
Post a Comment