مسند احمد کی روایت میں ایک حدیث پاک ہے حضرت زین بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ¿ کرام نے عرض کیا کہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا قربانی تمہارے ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے پوچھا ہمارے لئے اس میں کیا ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے ایک ایک بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قربانی کے دن اس سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں۔ قیامت کے دن قربانی کا جانور سینگوں، بالوں، کھروں کے ساتھ لایا جائے گا اور قربانی کرنے والا قربانی کے جانور کے خون کے زمیں پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے یہاں قبولیت کی سند لے لیتا ہے اس لئے تم قربانی خوشدلی سے کرو۔ ابن ِ عباس رضی اللہ عنہ فرماتہیں کہ قربانی سے زیادہ کوئی دوسرا عمل زیادہ افضل نہیں الا یہ کہ رشتہ داری کا پاس کیا جائے۔ (طبرانی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی فاطمة الزہراءرضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی قربانی ذبح ہوتے وقت موجود رہو کیونکہ پہلا قطرہ خون گرنے سے پہلے انسان کی مغفرت ہوجاتی ہے۔
قربانی کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث ہیں اس لئے اہل ِ اسلام سے درخواست ہے کہ اس عبادت کو ہرگز ترک نہ کریں جو کہ اسلام کے شعائر میں سے ہیں اور اس سلسلہ میں شرائط اور آداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے انہیں پیش ِ نظر رکھیں اور قربانی کا جانور خوب دیکھ بھال کر خریدیں۔ قربانی سے متعلق مسائل درج ذیل ہیں:
مسئلہ نمبر ۱: جس شخص پر صدقہ فطر واجب ہے اس پر قربانی بھی واجب ہے۔ (ہر عاقل ، بالغ مرد و عورت مسلمان مقیم جس کے پاس سونے یا چاندی کا نصاب 87.48گرام (ساڑھے سات تولہ) سونا یا 612.36 (ساڑھے باون تولہ) چاندی ہو یا حاجات ضروریہ سے زائد اتنی ہی مالیت کا سامان موجود ہو تو اس پر قربانی واجب ہے)۔
مسئلہ نمبر۲: مسافر پر قربانی واجب نہیں۔
مسئلہ نمبر۳: قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ سے لے کر بارہویں ذی الحجہ کی شام تک ہے، بارہویں ذی الحجہ کا سورج غروب ہو جانے کے بعد درست نہیں۔ قربانی کا جانور دن کو ذبح کرنا افضل ہے اگرچہ رات کو بھی ذبح کیا جاسکت اہے لیکن افضل بقرعید کا دن پھر گیارہویں اور پھر بارہویں ذی الحجہ ہے۔
مسئلہ نمبر۴: شہر اور قصبوں میں رہنے والوں کیلئے عید الاضحی کی نماز پڑھ لینے سے قبل قربانی کا جانور ذبح کرنا درست نہیں، دیہات اور گاﺅں والے فجر کی نماز سے پہلے بھی قربانی کا جانور ذبح کرسکتے ہیں، اگر شہری اپنا جانور قربانی کیلئے دیہات میں بھیج دے تو وہاں اس کی قربانی بھی نماز عید سے قبل درست ہے اور ذبح کرانے کے بعد اس کا گوشت منگواسکتا ہے۔
مسئلہ نمبر۵: اگر مسافر مالدار ہو اور کسی جگہ پندرہ دن قیام کی نیت کرے، یا بارہویں ذی الحجہ کو سورج غروب ہونے سے پہلے گھر پہنچ جائے، یا کسی نادار آدمی کے پاس بارہویں ذی الحجہ کو سورج غروب ہونے سے پہلے اتنا مال آجائے کہ صاحب نصاب ہوجائے، تو ان تمام صورتوں میں اس پر قربانی واجب ہوجاتی ہے۔
مسئلہ نمبر۶: قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا زیادہ اچھا ہے اگر خود ذبح نہ کرسکتا ہوتو کسی اور سے بھی ذبح کراسکتا ہے۔
مسئلہ نمبر۷: قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت زبان کی نیت پڑھنا ضروری نہیں دل میں پڑھ سکتا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قربانی کے دن اس سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں۔ قیامت کے دن قربانی کا جانور سینگوں، بالوں، کھروں کے ساتھ لایا جائے گا اور قربانی کرنے والا قربانی کے جانور کے خون کے زمیں پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے یہاں قبولیت کی سند لے لیتا ہے اس لئے تم قربانی خوشدلی سے کرو۔ ابن ِ عباس رضی اللہ عنہ فرماتہیں کہ قربانی سے زیادہ کوئی دوسرا عمل زیادہ افضل نہیں الا یہ کہ رشتہ داری کا پاس کیا جائے۔ (طبرانی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی فاطمة الزہراءرضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی قربانی ذبح ہوتے وقت موجود رہو کیونکہ پہلا قطرہ خون گرنے سے پہلے انسان کی مغفرت ہوجاتی ہے۔
قربانی کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث ہیں اس لئے اہل ِ اسلام سے درخواست ہے کہ اس عبادت کو ہرگز ترک نہ کریں جو کہ اسلام کے شعائر میں سے ہیں اور اس سلسلہ میں شرائط اور آداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے انہیں پیش ِ نظر رکھیں اور قربانی کا جانور خوب دیکھ بھال کر خریدیں۔ قربانی سے متعلق مسائل درج ذیل ہیں:
مسئلہ نمبر ۱: جس شخص پر صدقہ فطر واجب ہے اس پر قربانی بھی واجب ہے۔ (ہر عاقل ، بالغ مرد و عورت مسلمان مقیم جس کے پاس سونے یا چاندی کا نصاب 87.48گرام (ساڑھے سات تولہ) سونا یا 612.36 (ساڑھے باون تولہ) چاندی ہو یا حاجات ضروریہ سے زائد اتنی ہی مالیت کا سامان موجود ہو تو اس پر قربانی واجب ہے)۔
مسئلہ نمبر۲: مسافر پر قربانی واجب نہیں۔
مسئلہ نمبر۳: قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ سے لے کر بارہویں ذی الحجہ کی شام تک ہے، بارہویں ذی الحجہ کا سورج غروب ہو جانے کے بعد درست نہیں۔ قربانی کا جانور دن کو ذبح کرنا افضل ہے اگرچہ رات کو بھی ذبح کیا جاسکت اہے لیکن افضل بقرعید کا دن پھر گیارہویں اور پھر بارہویں ذی الحجہ ہے۔
مسئلہ نمبر۴: شہر اور قصبوں میں رہنے والوں کیلئے عید الاضحی کی نماز پڑھ لینے سے قبل قربانی کا جانور ذبح کرنا درست نہیں، دیہات اور گاﺅں والے فجر کی نماز سے پہلے بھی قربانی کا جانور ذبح کرسکتے ہیں، اگر شہری اپنا جانور قربانی کیلئے دیہات میں بھیج دے تو وہاں اس کی قربانی بھی نماز عید سے قبل درست ہے اور ذبح کرانے کے بعد اس کا گوشت منگواسکتا ہے۔
مسئلہ نمبر۵: اگر مسافر مالدار ہو اور کسی جگہ پندرہ دن قیام کی نیت کرے، یا بارہویں ذی الحجہ کو سورج غروب ہونے سے پہلے گھر پہنچ جائے، یا کسی نادار آدمی کے پاس بارہویں ذی الحجہ کو سورج غروب ہونے سے پہلے اتنا مال آجائے کہ صاحب نصاب ہوجائے، تو ان تمام صورتوں میں اس پر قربانی واجب ہوجاتی ہے۔
مسئلہ نمبر۶: قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا زیادہ اچھا ہے اگر خود ذبح نہ کرسکتا ہوتو کسی اور سے بھی ذبح کراسکتا ہے۔
مسئلہ نمبر۷: قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت زبان کی نیت پڑھنا ضروری نہیں دل میں پڑھ سکتا ہے۔
--
Fi Aman Allah
with best wishes and regards
Khurram Shahzad
+92 - 333 - 5127596
Visit:
http://123iqra.com
http://123iqraa.blogspot.com
Read archives at:
http://yoursks.googlegroups.com
"صرف وہی چیز انسان کی قسمت میں ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔ سورہ النجم آئت 39"
No comments:
Post a Comment