وہ ذمہ داریاں کیا ہیں؟ وہ صرف یہی نہیں ہیں کہ خُدا پر، اُس کے فرشتوں پر، اُس کی کتابوں پر، اُس کے رسولوں پراور یوم آخرت پر ایمان لائیں۔ وہ صرف اتنی بھی نہیں ہیں کہ آپ نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، حج کریں اور زکٰوۃ دیں۔ وہ صرف اتنی بھی نہیں ہیں کہ آپ نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ معاملات میں اسلام کے مقرر کئے ہوئے ضابطے پر عمل کریں، بلکہ اِن سب کے علاوہ ایک بڑی بھاری ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوتی ہے کہ آپ تمام دُنیا کے سامنے اِس حق کے گواہ بن کر کھڑے ہوں جس پر آپ ایمان لائے ہیں۔ “مسلمان“ کے نام سے آپ کو ایک مستقل اُمت بنانے کی واحد غرض جو قُرآن میں بیان کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ آپ تمام بندگان خُدا پر شہادت حق کی حجت پوری کر دیں ۔“اور اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک “اُمت وسط“ بنایا ہے تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو“یہ آپ اُمت کا عین مقصد وجود ہے جسے آپ نے پورا نہ کیا تو گویا اپنی زندگی ہی اکارت گنوا دی۔یہ آپ پر خُدا کا عائد کیا ہوا فرض ہے کیونکہ خُدا کا حُکم یہ ہے کہ“اے لوگو جو ایمان لائے ہو۔ خُدا کی خاطر اُٹھنے والے اور ٹھیک ٹھیک راستے کی گواہی دینے والے بنو“اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ“اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جس کے پاس اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے“پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس فرض کو انجام نہ دینے کا نتیجہ کیا ہے۔ آپ سے پہلے اس گواہ کے کٹہرے کئے گئے تھے مگر انہوں نے کچھ تو حق کو چھپایا اور کچھ حق کے خلاف گواہی دی اور فی الجملہ حق کے حق کے نہیں بلکہ باطل کے گواہ بن کر رہ گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے انہیں دھتکار دیا اور ان پر وہ پھٹکار پڑی کہ“ ذلت وخواری اور پستی وبد حالی ان پر مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے عذاب میں گھر گئے“یہ شہادت جس کی ذمہ داری آپ پر ڈالی گئی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ جو حق آپ کے پاس آیا ہے ،جو صداقت آپ پر منکشف کی گئی ہے، آپ دُنیا کے سامنے اس حق اور صداقت ہونے پر اور اس کے راہ راست ہونے پر گواہی دیں ۔ایسی گواہی جو اس حق اور راستی ہونے کو مبرہن کردے اور دُنیا کے لوگوں پر دین کی حجت پوری کردے۔اسی شہادت کے لئے انبیاء علیہم السلام دُنیا میں بھیجے گئے تھے اور اس کا ادا کرنا ان پر فرض تھا۔ پھر یہی شہادت تمام انبیاء کے بعد ان کی اُمتوں پر بحیثیت مجموعی اسی طرح عائد ہوتا ہے جس طرح حضور پر آپ کی زندگی میں شخصی حیثیت سے عائد تھا۔ لیکن آج اس کے باوجود ہم حق کی بات کرنے سے کتراتے ہیں کہ کہیں ہمیں کوئی دُنیاوی نقصان نہ ہوجائے۔
No comments:
Post a Comment