عقیدہ توحید مومن کے ایمان کا مرکز و محور ہے۔ شرک کا سایہ بھی انسان کو دائرہ ایمان سے خارج کر دیتا ہے۔ سفر معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک معجزہ ہے اور معجزہ رب کائنات کی قدرت مطلقہ کا مظہر ہوتا ہے۔ سفر معراج میں بھی توحید ربانی کے پرچم ہر طرف دکھائی دیتے ہیں۔ آدم سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام انبیاء جس آسمانی ہدایت کے ساتھ مبعوث ہوتے رہے اس کا مرکزی نقطہ بھی توحید ہی تھا کہ وہی ذات بندگی کے لائق ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ وحدہ لاشریک ہے، کوئی اس کا ہمسر ہے نہ ثانی، نہ اس کی کوئی انتہا ہے اور نہ ابتداء ہے۔ وہ ازل سے ہے اور ابد کے بعد بھی وہی ہے۔ جب کچھ نہ تھا تو وہ تھا جب کچھ نہ ہو گا تو پھر بھی اس کی ذات یکتا و تنہا ہو گی۔ اس ذات کو نہ اونگھ ہے نہ زوال، وہ ہر حاجت سے پاک اور مبرا ہے اور وہ ہر کسی کا حاجت روا ہے۔
امم سابقہ نے اکثر و بیشتر مسئلہ توحید کے بارے میں ٹھوکر کھائی ہے۔ ان کے اکثر افراد (الا ماشاء اللہ) نے اپنے نبی کو اس کے کمالات و روحانی تصرفات دیکھ کر الوہیت کے درجہ پر پہنچا دیا۔ ان میں سے کسی نے نبی کو خدا کا بیٹا کہا اور کوئی تمثلیث کا قائل ہو گیا۔ گویا نبی کو مقام نبوت سے ہٹا کر خدا کا شریک ٹھہرا لیا تاہم امت مصطفوی کو یہ شرف و افتخار حاصل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ عقیدہ توحید کی تعلیم ان کے قلوب و اذہان میں اس درجہ راسخ ہو گئی کہ اس پر شرک کی گرد پڑنے کا بھی کوئی احتمال باقی نہ رہا۔
اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرب کا انتہائی مقام تفویض کر کے ارشاد ہوتا ہے اوحی الی عبدہ ما اوحی ''ہم نے اپنے بندے کی طرف وحی کی''
اللہ اللہ! بندگی کا کیا مقام ہے کہ خدائی کا مختارِ کُل بنا دیا جائے، سارے الوہی خزانوں کی کنجیاں محبوب کے ہاتھوں میں تھما دی جائیں، جہاں تک اپنی شانِ ربوبیت ہو وہاں وہاں تک محبوب کو رحمت اللعلمینی کا تاج پہنا دیا جائے، مقامِ قاب قوسین اوادنی پر بلا کر جلوہء مطلق سے بہرہ یاب کر دیا جائے۔۔۔ اور پھر بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم " بندہ" ہی رہے۔ عقیدہ توحید میں کسی قسم کے خلجان اور التباس کی کوئی گنجائش نہیں کہ خالصیت اور عبدیت کے فاصلے کا پاٹنا ناممکنات میں سے ہے۔ اس فاصلے کو برقرار رکھنا بہرحال ناگزیر ہے۔
امم سابقہ نے اکثر و بیشتر مسئلہ توحید کے بارے میں ٹھوکر کھائی ہے۔ ان کے اکثر افراد (الا ماشاء اللہ) نے اپنے نبی کو اس کے کمالات و روحانی تصرفات دیکھ کر الوہیت کے درجہ پر پہنچا دیا۔ ان میں سے کسی نے نبی کو خدا کا بیٹا کہا اور کوئی تمثلیث کا قائل ہو گیا۔ گویا نبی کو مقام نبوت سے ہٹا کر خدا کا شریک ٹھہرا لیا تاہم امت مصطفوی کو یہ شرف و افتخار حاصل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ عقیدہ توحید کی تعلیم ان کے قلوب و اذہان میں اس درجہ راسخ ہو گئی کہ اس پر شرک کی گرد پڑنے کا بھی کوئی احتمال باقی نہ رہا۔
اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرب کا انتہائی مقام تفویض کر کے ارشاد ہوتا ہے اوحی الی عبدہ ما اوحی ''ہم نے اپنے بندے کی طرف وحی کی''
اللہ اللہ! بندگی کا کیا مقام ہے کہ خدائی کا مختارِ کُل بنا دیا جائے، سارے الوہی خزانوں کی کنجیاں محبوب کے ہاتھوں میں تھما دی جائیں، جہاں تک اپنی شانِ ربوبیت ہو وہاں وہاں تک محبوب کو رحمت اللعلمینی کا تاج پہنا دیا جائے، مقامِ قاب قوسین اوادنی پر بلا کر جلوہء مطلق سے بہرہ یاب کر دیا جائے۔۔۔ اور پھر بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم " بندہ" ہی رہے۔ عقیدہ توحید میں کسی قسم کے خلجان اور التباس کی کوئی گنجائش نہیں کہ خالصیت اور عبدیت کے فاصلے کا پاٹنا ناممکنات میں سے ہے۔ اس فاصلے کو برقرار رکھنا بہرحال ناگزیر ہے۔
--
Fi Aman Allah
with best wishes and regards
Khurram Shahzad
+92 - 333 - 5127596
Visit: http://123iqra.com
Read archives at:
http://groups.google.com/group/yoursks
صرف وہی چیز انسان کی قسمت میں ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔ سورہ النجم آئت 39"
No comments:
Post a Comment